|

وقتِ اشاعت :   July 16 – 2020

وزیراعظم عمران خان عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے فیصلے کرنے سے گھبرانے والی قوم بڑی نہیں بن سکتی۔عوام سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا وہی قوم ترقی کرتی ہے جو مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے بناتی ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے غلط فیصلے کیے جس کے باعث ہم ترقی میں دیگر ممالک سے پیچھے رہ گئے۔ 90 کی دہائی میں کیے گئے فیصلوں سے ملک کو نقصان ہوا اور معیشت کمزور ہوئی۔ ہم ایک اور مشکل فیصلہ کرتے ہوئے دیامر بھاشا ڈیم بنانے جا رہے ہیں، اس کو بنانے کا فیصلہ40 سال پہلے ہوا تھا اور کام آج شروع ہوا۔

دیامر بھاشا ڈیم کے بعد مزید بھی بنائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں درخت بھی لگانے ہیں کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا تو پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کی رفتار و معیار کا جائزہ لیں وہاں پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشاڈیم سے مقامی لوگوں کو مفت بجلی ملی گی۔دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم دنیا کا سب سے بڑا آر سی سی ہو گا جو 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے کام آئے گا اورڈیم سے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 48 دن ہو جائے گی۔

دیامر بھاشا ڈیم سے سالانہ 18 ارب 10 کروڑ یونٹس سستی ترین بجلی بھی میسر آئے گی اور یہ ڈیم 30 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے کے لیے پانی فراہم کرے گا۔دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ اپنی تعمیر کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران مہمند اور دیامر بھاشا پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔دیامر بھاشا ڈیم ملک کی واٹر، فوڈ اور انرجی سیکیورٹی کے لیے اہم منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ 29-2028 میں مکمل ہو گا۔دیامر بھاشا ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ ہے اور یہ منصوبہ نیشنل گرڈ کو ہر سال 18 ارب یونٹ پن بجلی فراہم کرے گا۔

ڈیم کی تعمیر سے ملک کی صنعتی سیکٹر کو سستی بجلی فراہم ہو گی تو سولہ ہزار سے زائد ملازمتیں بھی ملیں گی اور ڈیم کی تعمیر مقامی افراد کے حالات میں بہتری لائے گی۔ منصوبہ کوہستان اور گلگلت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کا بھی باعث بنے گا۔بہرحال عوام دعوؤں کے برعکس حکومتی اقدامات سے گھبرارہی ہے اور اب ان باتوں سے بھی لوگ اکتا جارہے ہیں کہ ماضی کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے ملک ترقی کے حوالے سے پیچھے رہ گیا ہے مگر یہی حکومتی جماعت گزشتہ ادوار اپوزیشن میں اتحادی تھے بدقسمتی سے کوئی واضح وژن نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل بحرانات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

اور اس کے ساتھ ہی معاشی ٹیم بجائے کے اپنے ماہرین کوشامل کرنے کے بیرونی ایکسپرٹ کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں اور شرائط پر جب ملکی معاشی نظام کو چلایا جائے گا تو اس کے نتائج کبھی بھی بہتر نہیں نکلیں گے حالانکہ ملک میں وسائل اور پیداواری صلاحیت بہت زیادہ ہے مگر اس جانب توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر وقت کی اشد ضرورت ہے جس سے نہری زمینوں کے ذریعے زراعت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ پانی کے بحران پر قابو پایاجاسکتا ہے۔

اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی نئے ڈیمز بنانے پر زور دیاجائے خاص کر بلوچستان کو اس کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پانی بحران کی وجہ سے یہاں قحط پڑتی ہے جس سے غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتاہے اور بلوچستان کی بڑی آمدن زراعت سے وابستہ ہے مگر پانی بحران کی وجہ سے آج یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے لہٰذا ملک کے تمام صوبوں میں زمینی حقائق کے مطابق ترقیاتی کاموں کاجال بچھایاجائے تاکہ مستقبل میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکیں۔