کراچی میں بجلی کا بحران مزید بڑھتاجارہاہے جبکہ طلب و رسد کا فرق 500 میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔کے الیکٹرک کے پاور پلانٹس کی پیداوار 1800 میگاواٹ تک محدود ہے۔ نجی پاور پلانٹس سے 300 اور نیشنل گرڈ سے 700 میگاواٹ بجلی کے الیکٹرک کو فراہم کی جارہی ہے۔ کراچی میں بجلی کی طلب 3300 میگاواٹ تک ہے۔ کے الیکٹرک حکام کے مطابق لوڈ شیڈنگ کراچی کے ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں لوگ چوری اور کنڈے سے بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کو بعض صارفین کی طرف سے بلوں کی عدم ادائیگیوں کا سامنا ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ بعض اوقات لائنز میں تکنیکی خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت بعض معاملات میں کے الیکٹرک کی مدد کررہی ہے جس پر ان کے مشکور ہیں۔ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ مون سون میں بجلی کی طلب کم ہوتی ہے۔ انہوں نے صارفین سے گزارش کی کہ بلوں کی برقت ادائیگی کریں تاکہ بجلی کی فراہمی برقرار رہے۔چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) کے الیکٹرک مونس علوی کا کہنا تھا کہ کراچی کے ہرعلاقے میں ساڑھے 7 سے 8 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جبکہ فالٹس کو لوڈشیڈنگ نہ سمجھا جائے۔
کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث مختلف علاقوں میں پانی کی عدم دستیابی کے باعث بھی عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کے الیکٹرک حکام کا یہ دعویٰ پہلی بار نہیں کہ شہری بل ادا نہیں کرتے اس لئے انہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اول تو یہ ہونا چاہئے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہے وہاں کے کنشکنز کاٹ دیئے جائیں جوکہ ایک قانونی عمل ہے کیونکہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ چوری کرے مگر ذرا کھل کر اس بات کا بھی اظہار کیاجائے کہ کراچی میں کتنی ایسی بڑی صنعتیں موجود ہیں جہاں پر کنشکنز نہ صرف مفت دی گئی ہیں۔
بلکہ صنعتوں کو چلانے کیلئے کنڈے کا استعمال صاف طریقے سے کرتے ہیں چونکہ صنعت کے اندر موجود بعض ایسے عہدیداران موجود ہیں جو اندرون خانہ کے الیکٹرک کے آفیسران کی ملی بھگت سے بجلی چوری کرتے ہیں جبکہ جتنی بجلی استعمال کی جاتی ہے اس سے کئی گنا کم بل ادا کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں پر کرپشن کو اس قدر فروغ دیاگیاہے کہ عام لوگ مجبور ہوکر اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے بجلی چوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اگر بجلی مسلسل فراہم کی جائے اور بجلی بلز پر اووربلنگ نہ لگائے تو عوام کوکیونکر ضرورت پڑے گی کہ وہ بجلی چوری کرے اور یہ راستہ ان کو دکھایا کس نے ہے۔
ملک میں جب سے بعض اداروں کو پرائیوٹائزیشن کیاگیا ہے ان کمپنیوں نے عوام کا خون چوسنا شروع کیا ہے بجائے سہولیات فراہم کرنے بلکہ ان کیلئے اذیت کاباعث بن چکے ہیں نسبتاََ دیگر ممالک میں کیونکر شہری ملکی قوانین کے مطابق معمولات زندگی چلاتے ہیں اور یہاں اس کے برعکس سب کچھ ہوتا ہے چونکہ ریاست ماں کا کردار ادا کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سب سے پہلے قانون سب کیلئے ایک کرے اور ہر قسم کی سہولیات یکساں طریقے سے فراہم کرے جب تک دوہرا معیار ہوگا تو اس سے مزید معاشرے میں کرپشن کی نفسیات بڑھ جائے گی۔
اور اس کا برائے راست نقصان قومی خزانہ کو ہی ہوگا لہٰذا بجلی کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے چارجز کے مطابق بل بنائے جائیں اور اس کی وصولی کا شفاف نظام بنائے تو بجلی چوری میں کمی آئے گی اور ساتھ ہی بروقت لوگ بجلی کے بلز ادا کرینگے اگر بجلی کی لوڈشیڈنگ غیر اعلانیہ طورپر کی جائے گی اور ہر ماہ بجلی کے بلز اسی طرح لوگوں پر مسلط کئے جائینگے تو کسی طرح بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔