|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2020

اسلام آباد: سینیٹ نے بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق آئینی ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کر لیا، جبکہ ملک میں ہائیکورٹس کے بینچز کی تعداد بڑھانے کا بل زیر غور لانے کی تحریک دوتہائی اکثریت کے ووٹ حاصل نہ ہونے کی صورت میں مسترد ہو گئی، تحریک کے حق میں 57جبکہ مخالفت میں 13ووٹ آئے، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بل کو دوبارہ کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اتفاق رائے کے لیئے بل کمیٹی میں گیا تھا اور کمیٹی نے اتفاق رائے سے پاس کیا ہے، قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم گفتگو کے دوران اپوزیشن نے احتجاجا ایوان سے واک آؤٹ کر دیا، تاہم بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کے بل کو ووٹ دینے کے لئے اپوزیشن واک آؤٹ ختم کرتے ہوئے ایوان میں واپس آگئی۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا۔

اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی نے دستور (ترمیمی بل 2020 آرٹیکل 198کی ترمیم) قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جاوید عباسی نے کہا کہ سستے اور فوری انصاف کے لیئے ضروری ہے کہ لوگوں کو ان کے دروزے پرانصاف پہنچائیں، یہ بل کمیٹی میں گیا تھا، ہائیکورٹ بینچز کی بہت ضرورت ہے، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ کچھ ٹیکنیکل مسائل ہیں، اس بل میں ترمیم ڈال لیں اور کمیٹی میں بھیج دیں کمی کو دور کر لیں، ہم نے آئینی ترمیم پاس کرانی ہے تو اس کو قومی اسمبلی سے سے بھی پاس کرانا ہے۔

اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے، اس کو کمیٹی کو دوبارہ بھیج دیں، قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ یہ آئینی ترمیم ہے اتفاق رائے سے ہو تو زیادہ موثر طریقہ ہو گا سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اتفاق رائے کے لیئے بل کمیٹی میں گیا تھا اور کمیٹی نے اتفاق رائے سے پاس کیا، اس کا تمام صوبوں اور لوگوں سے تعلق ہے،سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بل کمیٹی میں گیا اس پر بحث ہوئی،اس کا کریڈٹ سب کو جائے گا، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے تحریک پر رائے شماری کرائی، تحریک کے حق میں 57ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں 13ووٹ آئے، تاہم دو تہائی اکثریت کے ووٹ نہ ملنے کے باعث تحریک مسترد ہو گئی۔

سینیٹر شہزاد وسیم نے گفتگو شروع کی تو اپوزیشن ارکان نے ان گفتگو پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آٹ کر دیا چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر منظور احمد کاکڑ اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کو اپوزیشن کو منانے کے لیئے بھیجا،بعد ازاں اپوزیشن احتجاج ختم کرتے ہوئے ایوان میں واپس آ گئی سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہم صرف بلوچستان کے حقوق کے لیئے واپس آئے ہیں، اس موقع پر سینیٹرنصیب اللہ بازئی نے دستور (ترمیمی بل 2019 آرٹیکل 106کی ترمیم) منظوری کے لئے پیش کیا، سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس بل پر کمیٹی میں بحث ہوئی ہے۔

یہ ڈیمانڈ تھی کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھائی جائیں، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس بل کو تمام جماعتیں سپورٹ کر رہی ہیں، اس موقع پر چیئر مین سینیٹ نے بل پر رائے شماری کرائی گئی جس کے بعد بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ بلوچستان کے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی، تمام اسٹیک ہولڈرز کی خواہش تھی کہ قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھائی جائیں،صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھی ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ یہ دیرینہ خواہش تھی۔

ہاؤس نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا،یہ بہت بڑی کامیابی ہے، ممکن ہے اس سے بلوچستان کی محرومیوں میں کمی آجائے، امید ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ ہو گا، سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ یہ بڑی اہم ترمیم تھی جو ایوان میں اتفاق رائے سے پاس ہوئی قومی اسمبلی سے بھی پاس کریں گے، بلوچستان ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ یہ بلوچستان کا دیرینہ مطالبہ تھا۔

تمام سیاسی جماعتوں کا شکر گزار ہوں، سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ سب کا مشکور ہوں مبارک باد پیش کرتا ہوں، قومی اسمبلی سے بھی اتفاق رائے سے بل کو منظور کرایا جائے، سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ نہایت اہم کام آج پارلیمنٹ نے کیا ہے، قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھا دینی چاہیئیں، سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ یہ تاریخی موقع ہے، سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ جاوید عباسی کے بل کو بھی پاس ہونا چاہیے تھا، قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھائی جائیں۔