کوئٹہ: پا کستان سو سا ئٹی آف نیورو لو جی صدر پر و فیسر محمد سلیم بڑ یچ نے کہا ہے کہ پار کنسن کا مر ض کسی بھی عمر کے فرد کو متا ثر کر سکتا ہے قو می نما ئند گی کی حیثیت سے 126سے زیادہ عا لمی تنظیموں کے سا تھ مل کر پا کستان سو سا ئٹی آف نیور لو جی پی ایس این، پا ر کنسنز کی بیما ری میں مبتلا مر یضو ں اور ان کی دیکھ بھا ل کر نے والے افراد کی بہتر دیکھ بھال، تعلیم اور تحقیق کیلئے کام کر نے میں ڈبلیو این ایف کی حما یت کر تی ہے۔
اور 22جولائی کو دنیا بھر میں اعصابی بیماری ”پارکنسن“ کا عالمی دن منایا جائے گا انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے پا کستان میں 200سے 250 اور بلو چستان میں 10نیور لو جیسٹ مو جود ہیں جو کہ مر یضو ں کیلئے کم ہیں اس کا علا ج ابھی تک در یا فت نہیں ہو ا جبکہ مختلف دوا ئیو ں کے ذریعے اسکو کنڑ ول کیا جا سکتا ہے اگر وقت پر علا ج کیا جا ئے تو جو معذ ور ہو نے کا خدشہ کم ہو سکتا ہے۔
یہ بات انہوں نے منگل کو ڈکٹر امان اللہ، ڈاکٹر احمد والی کے ہمراہ کو ئٹہ پر یس کلب میں پر یس کا نفر نس کر تے ہو ئے کہی۔انہوں نے کہا ہے کہ اعصابی بیماری ”پارکنسن“ کا عالمی دن 22جولائی کو منایا جائیگا، ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں چار ہزار سے زائد اور پورے پاکستان میں دس لاکھ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں، اس بیماری سے ہاتھوں میں لرزش، ذہن اور دماغ کا آہستہ آہستہ خراب ہونا نیند، حافظہ اور بصارت میں بھی خلل پیدا ہوتی ہے،یہ بیماری دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ 22جولائی کو دنیا بھر میں اعصابی بیماری ”پارکنسن“ کا عالمی دن منایا جائے گا اس سلسلے میں پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور ڈبلیو ایف این کے اشتراک سے پورے ملک میں سیمینارز، اجلاس اور پریس کانفرنسز منعقد کی جائیں گی جس میں مریضوں اور عوام کو”پارکنسن“ کے مرض سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ اْنہوں نے کہا کہ یہ اعصابی بیماری جو دماغی حرکت اور اس کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔
اسے رعشہ اور جسم اور اعضاء کی حرکت کو آہستہ کرنے والی بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ کسی بھی عمر کے فرد کو متاثر کرسکتی ہے ان میں ساٹھ سال کی عمر سے لے کر سو سال کی عمر کے لوگ شامل ہیں اور دن بدن یہ بیماری بڑھتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کے حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد و شمار نہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ افراد میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔