بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کیخلاف چارج شیٹ قراردیدیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام سیاسی قیدیوں کو رہا ہونا چاہیے، نیب کالا قانون ہے اسے بند ہونا چاہیے، چیئرمین نیب استعفا دیں اورگھرجائیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ نیب انتقامی ادارہ ہے اسے ختم کر دیں اور اگر چیئرمین نیب میں شرم و حیا ہے تو وہ استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ن لیگی رہنماؤں سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے، شہباز شریف کی صحت یابی کے بعد اے پی سی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اور اس پر غیرتربیت یافتہ لوگ حکومت کررہے ہیں، اگرپنجاب کی زراعت کو نقصان ہوگا تو پورے پاکستان کی فوڈ سیکیورٹی پر اس کا اثر ہو گا۔انہوں نے کہا کہ جووزیراعلیٰ پوچھتا ہے کہ کورونا کیسے کاٹتا ہے تو صوبے کا حال یہی ہو گا، کہا جا رہا تھا کہ زرعی ایمرجنسی لگائی جائے گی، مگرکسانوں کو ایمرجنسی میں پہنچا دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب حکومت نے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، پی ٹی آئی کو لانے والوں کو کرپشن فری پاکستان بنانا تھا تو کیا آج پاکستان کرپشن فری ہے؟ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کرپٹ ترین حکومت ہے تو ان کو لانے کا کیا فائدہ؟چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم تو کہتے رہے ہیں کہ پنجاب میں کرپشن اور جادو ہو رہا ہے،لیکن اب تو پی ٹی آئی رہنما بھی مانتے ہیں کہ پنجاب میں کرپشن ہو رہی ہے، عمران خان کا کچن چلانے کے لیے بھی کرپشن کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں ڈاکٹرز جہاد کر رہے ہیں، تو خان صاحب ڈاکٹرز کو ان کا حق کیوں نہیں دیتے؟ عمران خان صاحب طبی عملے کوآپ کی تقریروں کی ضرورت نہیں، ان کو رسک الاؤنس دیں۔قومی احتساب بیورو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ نیب صرف مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
اور اسے سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بلاول بھٹو نے کہا کہ بلاتفریق احتساب کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو قانون سازی کرنی چاہیے، جب سلیکٹڈ حکومت لائی جاتی ہے تو جمہوریت، معیشت اور معاشرے کا یہی ہی حال ہوتا ہے جو آج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے میگا کرپشن پر نیب کوئی کارروائی نہیں کر رہی، خورشید شاہ سمیت نیب کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کے قومی اداروں کے اندر مداخلت یا انہیں اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ یہ ایک طویل تاریخی تسلسل ہے۔
بدقسمتی سے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اداروں کو بیچ میں لایا گیا تاکہ ان کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جاسکیں،آج اپوزیشن خاص کر بلاول بھٹو زرداری جس بات کا رونا رورہے ہیں یا احتساب کے حوالے سے شفافیت کا کہہ رہے ہیں تو کیا پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مخالفین کو کرپشن ودیگر الزامات کی بنیاد پر جیل کے اندر نہیں دھکیلا گیا اور بعد میں تمام الزامات جھوٹ ثابت ہوئے، اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب تک سیاسی جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے نہیں کرینگے۔
یہ سیاسی رویے چلتے رہینگے اور ہر حکمران جماعت اپنے مخالفین کو دبانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتی رہے گی حالانکہ بعض کیسز جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پربنے ہیں وہ انہی کے اپنے دور میں ایک دوسرے پر لگائے گئے چارج شیٹ ہیں جس کا اظہار پی ٹی آئی کی قیادت کرتی بھی ہے۔ بحرحال اس تمام سیاسی عمل کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑرہا ہے آج ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہے، مہنگائی عروج پر ہے بیروزگاری بڑھ رہی ہے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے،قومی اداروں کا دیوالیہ نکل گیا ہے، خسارے میں چلنے والے اداروں سے ملازمین کو نکالاجارہا ہے۔
حالانکہ حالات بہتر ہوسکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ کسی جماعت نے اداروں پر سرمایہ کاری اور میرٹ کو ترجیح نہیں دی بلکہ سیاسی بھرتیوں کے ذریعے من پسند افراد کو نوازا، اسی طرح اہم عہدوں پر بھی اپنے ہی منظور نظرافراد کو بٹھایاگیا، آج بھی کتنے دوہری شہریت والی شخصیات اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہوکر معاملات کوچلارہے ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کرینگی خود احتسابی کا آغاز نہیں کیاجائے گا ملک سے بحرانات کا خاتمہ ممکن نہیں،اس لئے بجائے الزامات کے،نظام کو بہتر بنانے کیلئے پارلیمنٹ کومضبوط کرنے کیلئے قانون سازی پر زور دیاجائے اور اداروں کو غیر جانبدارانہ ہوکر چلایاجائے تب جاکر بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔