پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں پارٹی کو منظم و متحرک کرنے اور نئے لوگوں کی شمولیت کا ٹاسک قمر زمان کائرہ کو سونپ دیا ہے جبکہ حکومت مخالف ممکنہ تحریک کو پنجاب خصوصاً سینٹرل پنجاب میں کامیاب بنانے کاٹاسک بھی قمرزمان کائرہ کے سپرد کیا گیا ہے۔ حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک کے لیے قمرزمان کائرہ اور جنرل سیکرٹری چوہدری منظور مل کر کام کریں گے دونوں رہنما ضلعی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر میٹنگز اور کنونشنز کا انعقاد کریں گے۔ اس حوالے سے متعلقہ عہدیداران کو پروگرام کا شیڈول تیار کرنے کی ہدایات دی گئیں ہیں۔
جبکہ پرانے جیالوں اور پارٹی ورکرز کے ساتھ بھی رابطے کیے جائیں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے قمر زمان کائرہ کو پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں سمیت دیگر ہم خیال جماعتوں سے بھی رابطے کرنے کی ہدایت کی ہے۔اطلاعات کے مطابق بلاول بھٹوزرداری حکومت ہٹاؤ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراختر مینگل سے ملاقات کی۔ زرداری ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ چند دنوں سے بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی سرگرمیوں میں کافی تیزی دیکھی جارہی ہے اور یہی امکان ظاہرکیاجارہاہے کہ پیپلزپارٹی مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں پرانی ساکھ کے طور پر دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر اب پیپلزپارٹی نے پنجاب سے سیاسی سرگرمیوں کو تیز کرنے کافیصلہ کیا ہے چونکہ پنجاب سیاسی حوالے سے ملک کا اہم حصہ ہے جہاں پر اکثریت ملنے والی جماعت باآسانی حکومت بناسکتی ہے۔فی الوقت تو مڈٹرم انتخابات اور حکومت گرانے کے آثار دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔
البتہ آنے والے وقت کیلئے پیپلزپارٹی ایک بار پھر اپنی پرانی پوزیشن بحال کرنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے جس کیلئے بلاول بھٹو نے پنجاب کا چناؤ پہلے کیا ہے تاکہ پیپلزپارٹی پنجاب میں بڑی جماعت کے طور پر ابھر کرسامنے آئے کیونکہ اس وقت پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا ووٹ بینک سندھ میں ہے جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی ہے مگر دیگر صوبوں میں پیپلزپارٹی کو اہم شخصیات اور نئے جیالے پارٹی میں شامل کرنے کا ہدف ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا باوجود اس کے کہ مسلم لیگ ن اتنی متحرک دکھائی نہیں دے رہی مگر اب بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن بڑی جماعت تصور کی جاتی ہے۔
اور آئندہ چند روز میں مسلم لیگ ن بھی بڑی تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے والی ہے۔ بہرحال اس تمام صورتحال کے باوجود سیاسی حالات کا جائزہ لیاجائے تو پی ٹی آئی حکومت کیلئے کوئی خاص خطرہ موجود نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی اپوزیشن جماعتوں میں واضح تقسیم دیکھی گئی ہے اور اب بھی اپوزیشن جماعتیں الگ الگ طریقے سے سیاسی سرگرمیاں اورپروگرام کررہے ہیں اس لئے ان کے ایک پیج پر ہونے کے حوالے سے خود بہت سارے سوالات اور ابہام موجود ہیں۔
جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور سردار اختر مینگل کی ملاقات بھی ان حالات میں اتنی اہم نہیں کہ کہاجائے کہ بہت بڑی تبدیلی جلد دیکھنے کو ملے گی کیونکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے مطالبات کو بڑی جماعتوں کے سامنے کتنی اہمیت حاصل ہے یہ سب جانتے ہیں اس لئے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی اس حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں کہ ان کو اولیت دی جائے گی۔ بہرحال سیاسی صف بندی کا آغازہوچکا ہے مگر موجودہ حکومت پر اس کے خاص اثرات نہیں پڑینگے۔