آبنائے باسفورس کے کنارے، جہاں بحیرہئ مرمرہ اور بحیرہئ اسود ملتے ہیں اور اسے یورپ و ایشیاء کی سرحد کہا جاتا ہے، آیا صوفیا کی یہ عظیم الشان عمارت واقع ہے۔ استنبول کا شمار یوریشیا ء کے اہم ترین میں شہروں میں ہوتا ہے جس کی حدود دو براعظموں میں ہیں اور اس کی آبادی آج ڈیڑھ کروڑ ہوچکی ہے۔ 660قبل مسیح میں یہ شہر ”بازنطین“ کے نام سے آباد ہوا اور 330میں جب رومی شہنشاہ قسطنطین نے اسے سلطنت روما کا پایہئ تخت بنایا تو اس کا نام قسطنطنیہ ہوگیا۔ قسطنین نے اس شہر اور اپنی سلطنت کو عیسائیت کا مرکز بنایا۔
گیارہ صدیوں تک رومی سلطنت کا دارالحکومت رہنے والے اس شہر کو 1453عیسوی میں سلطان محمد فاتح دوم نے فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا پایہئ تخت بنالیا اور اس کا نام تبدیل کرکے استنبول کردیا۔ یہ 1922تک پانچ صدیاں ترکی کا دارالحکومت رہا۔ یروشلم کی طرح اس شہر پر بھی مشرق و مغرب یعنی عیسائیت اور اسلام کا دعویٰ ہے۔ لیکن یروشلم کے برخلاف استنبول کے مسیحی ورثے کو تقریباً فراموش کردیا گیا۔جدید استنبول پر ہزار سالہ تاریخ کے نقوش آج بھی باقی ہیں۔ 537میں رومی سلطنت کے دارالحکومت میں آیا صوفیا کے گرجے کی تعمیر ہوئی۔
یہ مشرقی روم کے بڑے گرجا گھروں میں شمار ہوتا تھا۔ 1935میں اسے مصطفی کمال اتاترک کی قائم کردہ جدید ترکی ریاست کے سیکیولرزم کی علامت کے طور پر عجائب گھربنا دیا گیا۔ترک عدالت نے جب اس عمارت کو عجائب گھر بنانے کے اتاترک کے فیصلے کو منسوخ کیا تو اس کے فوری بعد ہی ترکی کے صدر طیب اردوان نے آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کردیا۔ اس عمارت کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا تھا۔ اردوان کے فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی اور احتجاج کی صدائیں بھی بلند ہوئیں۔ روسی آرتھوڈوکس چرچ نے اس فیصلے کو ”پوری مسیحی تہذیب“ پر حملہ قرار دیا۔
یہ مضحکہ خیز ردّ عمل تھا۔ اگرچہ اس عمارت میں گزشتہ چند دہائیوں سے نماز ادا نہیں کی جارہی تھی لیکن 1453کے بعد یہ صدیوں تک مسجد رہی۔ اس لیے اسے دوبارہ مسجد کے طور پر بحال کردینے سے کسی تہذیب کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین نے ترکی کے فیصلے پر ”افسوس“ کا اظہار کیا لیکن اس سے زیادہ کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم بعض امریکی نیوز چینلوں نے ترکی کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی۔ ترک عوام کی غالب اکثریت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ یہ ترکی میں تبدیلی کے آثار ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے وعدہ کردہ سیکیولرزم اس ملک کے لوگوں سے کیا گیا وعدہ وفا نہیں کرسکا۔
اسباب جو بھی رہے ہوں، یورپی یونین نے ترکی کو یورپ میں شامل نہ کرکے یہ موقع گنوا دیا۔ مسیحی یورپ اس براعظم میں صدیوں تک ترکوں کی حکمرانی کو فراموش نہیں کرسکا۔ ایک صدی تک یورپ میں جگہ بنانے کی کوششوں میں ناکامی اور سرد جنگ کے دوران نیٹو کے لیے ڈھال بنے رہنے کے بعد صدر اردوان کی قیادت میں ترکی اپنی اصل کی طرف پلٹ رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ورلڈ آرڈر میں ایک نئے دشمن کی ضرورت کے تحت گزشتہ ایک صدی میں مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈے کا احیا کیا گیا۔
اس کی وضاحت سیمیول ہنٹنگٹن کی ”تہذیبوں کے تصادم“ جیسی کتابوں سے ہوجاتی ہے۔ مغربی خفیہ اداروں کی مدد، اسلام کی تضحیک کے لیے سلمان رشدی جیسے لوگوں کی پشت پناہی اور شارلی ہیبڈو جیسے واقعات کا سہارا لے کر عالمی ”اسلامی“ دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ کمال اتاترک نے یک طرفہ طور پر سطحی سیکیولرزم کو ترکی پر نافذ کرکے ترک عوام کی روح میں پیوست اسلامی علامتوں کو بیک جنبش قلم ممنوع قرار دے دیا۔ بالخصوص ترکی کے دیہی علاقے جہاں روایتی لباس زیب تن کیا جاتا تھا اور خواتین سرڈھانپتی تھیں، ان ثقافتی علامتوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
عربی کی جگہ لاطینی رسم الخط رائج کیا گیا جس کے باعث آئندہ نسلوں کے لیے نہ صرف قرآن پڑھنا ناممکن ہوگیا بلکہ سلطنت عثمانیہ کے سقوط سے قبل لکھا اور چھپا ہوا کوئی ایک حرف بھی ان کے لیے ناقابل فہم بنادیا گیا۔ جب کسی معاشرے کو اس کے ثقافتی ورثے سے محروم کیا جاتا ہے تو اس سے لازمی ردّ عمل جنم لیتا ہے۔ اسی ردعمل کے نتیجے میں اسلام کی احیا کے لیے مختلف اسلامی جماعتوں کا قیام ہوا جن میں طیب اردوان کی پارٹی بھی شامل ہے۔ آیا صوفیہ کو نمازیوں کے لیے کھولنا اسی جبر سے نکلنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
امریکا، نیٹو، یورپی یونین اور پھر یونان کے معاملے پر صدر اردوان سے ہونے والے مسائل کی وجہ سے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف فضا پیدا کی گئی۔ لیکن یہ فیصلہ تنہا طیب اردوان کا نہیں، یہ ترک عوام کی اس خواہش کا مظہر ہے کہ صدیوں یہ عمارت عبادت گاہ رہ چکی ہے اور ترک اس کے پہلے وارث ہیں، عالمی ورثہ ہونا اس کی ثانوی حیثیت ہے۔ پھر ترکی کی ایک عدالت نے یہ حکم جاری کیا اس لیے مزید کسی تبصرے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یونیسکو کویہ فکر لاحق ہے کہ نماز کی ادائیگی سے عمارت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہر سال لاکھوں سیاح آیا صوفیہ آتے ہیں۔
اسے مقبول سیاحتی مقام تصور کیا جاتا ہے۔ اسے نمازیوں اور تاریخ و فن تعمیر میں دل چسپی رکھنے والے سیاحوں دونوں کے لیے یکساں طور پر کھلا رکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دنیا میں ایسی کئی عمارتیں ہیں۔ عبادت کے وقت کے علاوہ جرمنی میں تمام گرجا گھر سیاحوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ فرانس کا نوٹرڈیمس چرچ بھی سیاح کے لیے کھلا رہتا ہے۔ مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے استنبول میں بھی یہ ممکن ہے۔قرطبہ کی مثال دیکھ لیجیے۔ میں جب مسجد قرطبہ گیا تو معلوم ہوا کہ یہ گرجے کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اس میں چارلس پنجم نے کلیسیائی محرابیں تعمیر کروائیں۔
مشہور کے اس نے اس پُرشکوہ عمارت کی بربادی دیکھ کر کہا تھا”تم نے ایک منفرد عمارت کو برباد کرکے اسے عامیانہ بنا دیا ہے“۔ جب میں بہت سادگی سے وہاں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو بتایا گیا کہ ایسا کرنے پر مجھے گرفتار کرلیا جائے گا۔ حال ہی میں اسپین کے مسلمانوں نے اس وسیع عمارت میں نماز کی اجازت کے لیے کیتھولک چرچ سے رجوع کیا ہے اور اسلامک کونسل آف اسپین نے ویٹی کن میں باضابطہ درخواست بھی دائر کی ہے۔ اسپین میں چرچ کے منتظمین اور ویٹیکن نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔ گرجے کے اس تنازعے سے ہسپانوی تاریخ و شناخت پر متضاد آراء واضح ہوجاتی ہیں۔
میرے عزیز دوست فرینک نیومن کے گزشتہ برس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میں کئی بار بحیرہ روم کے نزدیک موریرا کی ایک چٹان پر تعمیر کیے گئے ان کے خوب صورت ولا میں ان سے ملنے جاچکا ہوں۔ فرینک بہت مہمان نواز تھے اور ہم نے اکٹھے اسپین کے کئی شہروں کی سیر کی ہے بلکہ اس علاقے میں مسلم اور یہودی ورثے کے ساتھ ساتھ مسیحی مذہبی یادگاروں کا بھی کھوج لگایا۔ فرینک نے ان شہروں میں مجھے کئی ایسی مساجد اور سنیگاگ کے بارے میں بتایا جنھیں گرجا گھروں میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ عمارتیں آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں۔
مختلف مذاہب کی تاریخ کے بارے میں فرینک کی معلومات حیران کُن تھی۔ غرناطہ کی فصیل پر کھڑے ہوکر فرینک نے مجھے یہودیوں اور مسلمانوں کے بنائے ہوئی کئی قلعے دکھائے جنھیں اسپین کے دفاع کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ باہمی اعتماد کی تحیر خیز علامتیں تھیں۔ یہ دیکھ کر اسرائیل اور فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر یقین کیا جاسکتا ہے؟ ماضی کی اصلاح تو ممکن نہیں اور نہ ہی ہم فاتحین کے پیدا کردہ حالات کو پلٹا سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں امن کے ساتھ رہنا ہوگا جیسا ہم اسپین میں رہ چکے ہیں۔ کمال اتاترک ایک عظیم آدمی تھے۔
لیکن آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کرکے انہوں نے جو خطا کی تھی اردوان نے اس کا ازالہ کیا ہے۔ پاکستان آج کل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد ارتغرل کی داستان کے سحر میں مبتلا ہے۔ آیا صوفیہ کو مسجد بنانے والے سلطان محمد دوم انہی کے جانشینوں میں سے تھے۔ آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کرکے صدر اردوان اور ترک عوام نے صرف عثمانی تاریخ اور اسلامی شناخت پر اپنا حق دوبارہ حاصل کیا ہے۔