سپریم کورٹ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان منگی کی اہلیت پر شکوک و شبہات کے باوجود انہیں شوگر سبسڈی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا سربراہ بنا دیا گیا۔چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرصدارت نیب ہیڈ کوارٹرز میں اجلاس ہوا جس میں شوگر کمیشن کی رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔نیب اعلامیہ کے مطابق شوگرسبسڈی کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں انویسٹی گیشن افسران، فارنزک ماہرین، فنانشنل ماہرین اور لیگل کونسل شامل ہوں گے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ٹیم میں شوگر انڈسٹری کے معاملات میں تجربہ رکھنے والے ماہرین بھی شامل ہو نگے اور اس معاملے کی تحقیقات کی نگرانی ڈی جی نیب عرفان منگی کریں گے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے خود کو نیب افسر ظاہر کرکے فراڈ کرنے والے ملزم کی درخواست پر سماعت کے دوران ڈی جی نیب عرفان منگی کی اہلیت پر سوال اٹھائے تھے۔جسٹس قاضی فائز نے ڈی جی نیب عرفان منگی سے استفسار کیا کہ عرفان منگی صاحب آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے۔
اس پر ڈی جی نیب نے بتایا کہ میں انجینئر ہوں اور تنخواہ 4 لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔جسٹس قاضی نے سوال کیا کہ کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں؟ اس پر عرفان منگی نے بتایا کہ میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں۔اس پر معزز جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب عرفان نعیم منگی کی تقرری اوراہلیت پرسوال اٹھاتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے نیب کے تمام ڈی جیز کی تقرریوں سے متعلق تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔دنیا کے مہذب ممالک میں کرپشن میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے متعلق سخت قوانین ہیں اور اس میں اداروں کااہم کردارہوتا ہے اس لئے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں کرپشن کو پروان چڑھانے کیلئے خود سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بعض اہم سیاسی شخصیات کی مالی حیثیت سیاست سے قبل کیا تھی اور آج وہ کتنے دولت مند اور ملک کے امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ ٹیکس دہندگان میں ان کا نام سرفہرست تک نہیں مگر سیاسی پوزیشن میں رہ کر بہت سی رقم قومی خزانے کو نقصان پہنچاکر کمایا گیا اسی وجہ سے آج ملک معاشی حوالے سے دیوالیہ ہوچکا ہے۔مگر ادارے جب انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرپٹ ترین عناصر کو سزا دیں اور ان منفی سیاسی روایات کو ختم کریں تو یقینا ملک سے کرپشن کا نہ صرف خاتمہ ہوگا بلکہ عوام کا خون جس طرح مختلف طریقوں سے نچوڑا جارہا ہے یہ عمل بھی رک جائے گا کیونکہ شوگر اسکینڈل سب کے سامنے ہے کہ اس میں کون سی شخصیات شامل ہیں۔
جن کا سیاسی اثر ورسوخ حکومت واپوزیشن جماعتوں میں موجود ہے۔ البتہ اعلیٰ عدلیہ نے جو سوالات اٹھائے اور جن شہبات کا اظہار کیا ہے اسے دور کرنا ضروری ہے وگرنہ نیب کے اوپر مزید سوالات اٹھ سکتے ہیں کیونکہ گزشتہ چند عرصوں کے دوران نیب کے حوالے سے بعض شہبات دیکھنے کو ملے ہیں اب اگر احتسابی قومی ادارہ ہی میرٹ کا خیال نہیں رکھے گا تو شوگر معاملہ بھی اپنے نتیجہ پر نہیں پہنچ پائے گا بلکہ دیگر کرپشن کیسز کی طرح یہ بھی قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا اور اس سے قومی اداروں سے عوام کا اعتماد مزید اٹھ جائے گا۔