میں حیران ہوا جب ہمارے وزیر خارجہ صاحب نے استحصال کی بات کی، پھر سوچنے لگا کہ یہ ٹھیک ہے کیا فرق پڑتا ہے جو خود استحصال کا شکار ہو اور زمانے کے استحصال کی بات کرے۔ موجودہ حکمران خودکروڑوں لوگوں کے استحصال کا سبب ہیں، اب وہ ایک اور بیانیہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام کو جذباتی نعروں میں ورغلا کر اصل میں اْنکی سیاسی و شعوری استحصال کرنے لگے ہیں۔ میں دنیا کے تمام مظلوم اقوام پہ ہونے والی بربریت کا مذمت کار ہوں، اور دْعا گو ہوں کہ ایسی قومیں جو استحصال کا شکار ہیں جلد ظلم و ستم سے نکل جائیں اور اپنا حق خود ارادیت رکھیں۔
البتہ ایک نظر ان اقوام پر جو اپنا حق خود ارادیت تو رکھتے ہیں مگر پھر بھی استحصال کے مرحلے سے گزر رہے ہیں جن میں ہم پیش پیش ہیں۔ پورے ملک میں یومِ استحصال کی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ کوئی یہاں کے اپنے مزدوروں کی استحصال کی بھی بات تو کرے کہ وہ اس وبائی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ ہیں، دو تین مہینوں سے مزدوری نہیں ملی اب اتنے قرضے لئے ہیں کہ اگلے دو تین مہینوں کی مزدوری بھی ان قرضوں میں چکانی ہوگی۔ اور جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا تو اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں کھلیں گی اور وہاں بھی مزدور کے بچوں کا ہی استحصال ہوگا۔
سرمایہ دار طبقے نے تو اپنے اکاؤنٹس بھرے ہیں جو انھیں برسوں چلاسکتے ہیں اور انکے بچوں کی لاکھوں کی فیس بھی ادا ہوسکتی ہے، چلیں یہ استحصال بھی قابل برداشت ہے۔ اس وبائی صورتحال میں جہاں دنیا اپنے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے اور ایک یہاں کہ اپنے بولنے اور لکھنے والوں پہ ظلم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں۔صحافی محفوظ نہیں ہیں، شعبہ صحافت کی استحصال کی کہانیاں عام ہوچکی ہیں پچھلے دنوں ایک صحافی انور جان کا ضلع بارکھان میں قتل ہوا، قاتل موقع سے فرار ہوئے،دو ہفتے گزرنے کے باوجود ملزمان کی تلاش نہ ہوسکی۔۔
ظاہر ہے ملزمان طاقتور ہونگے یا پھر استحصال کرنے والوں کے خاندان سے ہونگے جو کبھی نظر آتے ہیں اور نہ پکڑے جاتے ہیں۔۔ استحصال کاسلسلہ صحافیوں تک ختم نہیں ہوتا یہاں ہر فرد اس اذیت کا شکار ہے اقلیت بھی ظلم کے شکنجے میں، عبادت کرنا محال ہوگیا ہے، عبادت گاہ بنانا جرم بن گیا ہے۔ اس نقشے میں بسنے والے تمام اقوام جو سینکڑوں و ہزاروں سالوں سے چل کر آرہے ہیں، جو اپنا سیاسی، سماجی، معاشی، و ثقافتی پہچان رکھتے ہیں آج اس نقشے کے اندر ان کو اپنے پہچان کا خطرہ لاحق ہے۔ صوبائی خودمختاری کے باجود احکامات اوپر سے ملنے لگے ہیں۔
عدلیہ انصاف دلانے میں اتنی دیر کرتی ہے کہ مزکورہ فریق کی موت واقع ہوچکتی ہے۔ سیاسی کارکنان کو حق کے لئے بولنے پر جان کی بازی ہار دینی پڑ رہی ہے، جیلیں سیاسی کارکنان سے بھرے پڑے ہیں۔ کچھ نہیں بہت کچھ تو غائب ہیں۔ اب اس استحصال کے لئے کہاں مظاہرے کیے جائیں؟ سیاہ دن کے لئے کونسی تاریخ مقرر کی جائے جبکہ یہاں ہر گھر میں ہر دن سیاہ گزرتی ہے، ہر عید اپنے پیاروں کی آمد کو تکتے سوگ میں گزر جاتی ہے۔ کس شاہراہ کو مزدور کے پسینے کے نام کریں؟ اقوام عالم کے سامنے اپنے استحصال کردہ لوگوں کے دکھڑے کب سنائیں گے؟ انکے غائب بچوں کی بھی تصویر دکھائیں گے؟
کوئی ایسا طبقہ ہی نہیں رہا جو یہاں استحصال کا شکار نہ ہو سوائے طاقتورکے۔ اور طاقت باہر استعمال ہونے کے بجائے اندر استعمال ہو رہی ہے۔۔ کاش ہم یوم استحصال کے دن بھی استحصال کا شکار نہ ہوتے۔۔۔