سانحہ سول ہسپتال8اگست کے شہداء وکلاء, وصحافیوں کی چوتھی برسی آج بلوچستان بھر میں منائی جارہی ہے ۔اس دلسوز واقعہ کو بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا اس دن دہشت گردوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقہ کو نشانہ بنایا جس سے ایک بہت بڑا علمی نقصان ہوا جس کی خلاء کبھی پُر نہیں کی ہوسکتی۔ سانحہ سول ہسپتال کے شہداء کا غم آج بھی عوام کے دلوں میں تازہ ہے۔ دہشت گردوں نے بلوچستان کی زرخیز سرزمین کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کو بربریت کا نشانہ بنایا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل بھی شدت پسند تنظیموں نے بلوچستان کو لہولہان کیا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دہشت گردی کے پیچھے وہی عناصر ملوث ہیں جنہوں نے بلوچستان کے خوبصورت کلچر کو اسلحہ اور منشیات سے بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا تھا۔ افغان وار کے بعد ایک بڑی تعداد مہاجرین کی بلوچستان پہنچی اور ان پناہ گزینوں کی آڑ میں چند مہاجرین دہشت گردوں کے آلہ کار بن کر بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلتے آئے ہیں۔ آٹھ اگست کی دہشت گردی کا مقصد بلوچستان میں شدت پسندی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ یہاں کے پڑھے لکھے لوگوں کو نشانہ بناناتھا مگر دہشت گرداپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔
آج بھی بلوچستان کی باشعور عوام دہشت گردی کی اس ذہنیت کے خلاف علمی بنیاد پر لڑرہے ہیں اور آج کسی حد تک بلوچستان میں شدت پسندی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جس کا سہرا انہی شہداء اور ان کے علمی وارثوں کے سر جاتا ہے مگر سب سے اہم قدم بلوچستان حکومت کو اٹھانا چاہئے کہ بلوچستان میں موجود پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنائے اور انہیں کیمپوں تک محدود رکھے کیونکہ کبھی بھی کوئی سانحہ چند شرپسند عناصر کی وجہ سے پیش آسکتا ہے۔
امریکی ونیٹو افواج کی انخلاء کے بعد پاکستان سے مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے لیے عملی طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جوکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا اہم مطالبہ ہے، بدقسمتی سے یہ مسئلہ طول پکڑتاجارہا ہے اورہر بار مہاجرین کی واپسی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے اس لئے وفاقی حکومت کوبھی چاہئے کہ اس سنجیدہ مسئلہ پر توجہ دے تاکہ افغان مہاجرین کا انخلاء ممکن ہوسکے۔ بلوچستان اپنے خوبصورت روایات اور کلچر کی وجہ سے منفرد پہچان رکھتا ہے جسے دہشت گردوں نے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی ان کی وجہ سے ایک بڑا مسئلہ ہے تودوسری طرف معاشی وسیاسی حوالے سے بھی بلوچستان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔آج بلوچستان میں بیشتر تجارتی سرگرمیوں پر مہاجرین غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔
جتنی بھی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے اس میں مہاجرین ہی ملوث ہیں اس کا بڑانقصان مقامی لوگوں کو معاشی حوالے سے پہنچ رہا ہے لہٰذا قانونی طور پر ان کوکیمپوں تک محدود رکھاجائے اور یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی بنتی ہے۔اسی طرح غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ اور دیگرقومی دستاویزات کے حوالے سے بھی چھان بین کی جائے کیونکہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے قومی دستاویزات بنا رکھے ہیں جو بلوچستان کے سیاسی معاملات پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں جبکہ حقیقی پختون جو بلوچستان میں رہتے ہیں ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں لہٰذاتمام سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔
کہ وہ اس مسئلہ پر ایک پیج پر ہوکر پالیسی بنائیں تاکہ بلوچستان کی روایات مزید پامال نہ ہوں جنہیں عرصہ دراز سے چیلنج کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ آٹھ اگست کے سانحہ کو یادرکھتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عنصر کے خاتمے کیلئے بھی ملکر جدوجہد کا عزم کیا جائے گا۔