مچھ: بی این پی کی مرکزی رہنما غلام نبی مری نے کہا ہے کہ مری معاہدہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین معاہدہ تھا بی این پی نے ذاتی مفادات مراعات سے بالاتر ہوکر بلوچستان کے عوام کی ترجمانی کی چھ اہم بنیادی نکات پیش کی جس سے بلوچستان کیساتھ جاری 70 سالوں سے ناانصافی کی مداوہ تو نہیں ہوسکتا کم از کم چند اہم بنیادی مسائل حل ہوتے جن کاحل ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
لیکن وفاق نہیں چاہتا کہ بلوچستان کے لوگ خوشحال زندگی بسر کریں لاپتہ افراد کو بازیاب اور افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے انخلا کو یقینی بنایا جائے بلوچ کھبی بھی تنک نظر نہیں رہا ہے پشتون بھائی اپنے اضلاع کو چائے جہاں بھی ضم کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں تاہم یہ وقت وحدتوں کی تعین تقسیم کا نہیں جب کھبی بھی وحدتوں کے تعین کامعاملہ طے ہوتا ہے۔
تو بلوچ اگر کسی کا قرض دار ہوگا وہ دینے کیلئے تیار ہیں موجودہ کٹھ پتلی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ان خیالات کا اظہار انھوں نے کولپور میں قوم پرست رہنماء چیف منظور بلوچ کی برسی کی تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بی این پی کوئٹہ کے رہنماء غلام رسول مینگل ضلعی صدر کچھی صدر ادا کریم بلوچ علی مراد کرد بابے لہڑی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
اور چیف منظور بلوچ کو ان کی سیاسی سماجی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا غلام نبی مری نے کہا کہ سائل وسائل سے مالا مال بلوچ دھرتی کی باسی نان شبینہ کیلئے محتاج ہیں ہر دور میں بلوچستان کیساتھ ناانصافی ہوئی ہے ہر حکومت نے بلوچستان کیساتھ ناانصافی کی کا اعتراف کرکے معافی مانگی لیکن بعد میں انھوں نے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہمیں 70 سالوں سے طفل تسلیاں دی جارہی ہے۔
لیکن ہمارے مشکلات و مسائل محرومیوں میں زرہ برابر بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ یہ تسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے مری معاہدہ بلوچستان کے تاریخ کا ایک سیاسی سیاہ ترین معاہدہ تھا جس میں بلوچستان کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا معاہدہ کیا گیااور یہ معاہدہ ایک ایسی لسانی تنک نظر پارٹی کیساتھ کیا گیا جو بلوچستان کو تسلیم ہی نہیں کرتی اور اپنے منشور میں بلوچستان کو دو صوبے قرار دیتی ہے۔
موجودہ حالات میں بلوچ اپنی بقاء و تشخص کیلئے جدوجہد کررہے ہیں یہ وقت وحدتوں کے تعین اور تقسیم کا نہیں بلوچستان کے بعض علاقوں کو دیگر صوبوں میں شامل کیا گیا ہے جب بھی وحدتوں کی تقسیم کا کوئی فارمولا طے ہواتو بلوچ تنک نظر نہیں جس کا بھی قرض دار ہوگا وہ دینے کیلئے تیار ہیں بی این پی نے کامیابی کے بعد بلوچستان کے چھ اہم بنیادی نکات پیش کی چھ بنیادی نکات میں لاپتہ افراد کا بازیابی افغان مہاجرین کی انخلا گوادر میں مقامیوں کے حقوق کیتحفظ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ سائل وسائل میں شراکت داری شامل تھے۔
وفاقی حکومت کی یقین دہانی پر حکومتی اتحاد کا حصہ بنا لیکن چھ نکات پر عملدر آمد نہ ہونے پر ہمیں مجبورا حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونا پڑا لاپتہ افراد کے عدم بازیابی اور افغان مہاجرین کے واپسی میں بلاوجہ تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ اب افغانستان میں حالات کافی ساز گار ہیں وقت تقاضا ہے کہ بلاتاخیر افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائی جائے پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ہے۔
بلوچ کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے مہر گڑھ جس کی زندہ مثال ہے بلوچ پشتون سرائیکی سندھی اقوام استحصالی قوتوں کیخلاف متحد ہوکر جدوجہد کریں موجودہ اپوزیشن نے حکومت کو سخت ٹف ٹائم دیا ہے سیندک گوادر لاپتہ افراد سمیت اہم بنیادی مسائل کو بی این پی نے اسمبلی کے اندر اور باہر اٹھاکر اپنا حق ادا کررہے ہیں کیونکہ بلوچستانی عوام نے بی این پی پر اعتماد کیا ہے۔
اور پارٹی نے بھی عوام کی اعتماد کو کھبی ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ ہر فارم پر بلوچستان کی اجتماعی بنیادی مسائل کو اجاگر کیا انھوں نے کہا کہ ورکرز ہماری سرمایہ ہیں بی این پی ایک جمہوری اور سیاسی عوامی پارٹی ہے پارٹی کا ہر فیصلہ سنٹرل کمیٹی کرتی ہے انھوں نے کہا چیف منظور بلوچ کی سیاسی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہیں تاہم وہ جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہیں لیکن مرحوم کے فکر وسوچ ہمارے ساتھ ہے آخر میں شرکاء نے چیف منظور کے روح کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی اور شرکاء میں لنگر تقسیم کیا گیا۔