|

وقتِ اشاعت :   August 13 – 2020

کراچی : لیکویفائڈ پیٹرولیم گیس(LPG) پاکستان کی انرجی مکس کے% 1فیصد پر مشتمل ہے۔

اس استعمال کا رجحان بنیادی طور پر باکفایت نرخ پر ملکی قدرتی گیس کی وافر مقدار میں فراہمی کی وجہ سے ہے۔تاہم حالیہ برسوں میں قدرتی گیس کی رسد اور طلب میں وسیع فرق ہونے،خاص طور پر شہری علاقوں میں اور اس کے ساتھ مٹی کے تیل کی زیادہ قیمتوں کے سبب،ایل پی جی کے استعمال میں اضافہ ہو اہے۔JJVL نے 2003میں ایل پی جی /این جی ایل (نیچرل گیس لیکویڈ)نکالنا شروع کی جس کی بڑی وجہ UEP کی ملکیت بدین گیس فیلڈ میں گیس کی بھاری مقدار میں موجودگی تھی جو 155 + ایم ایم سی ایف ڈی تیار کر رہی تھی۔چونکہ یہ پائپ لائن کے معیارکی گیس نہیں تھی اورSSGC کے پاس بدین گیس نکالنے کے حقوق تھے،گیس سے بھاری ہائیڈرو کاربن نکالنے کے لئے،گیس یوٹیلٹی نے JJVL کے ساتھ ٹینڈرپروسیس کے ذریعہ امپلی منٹیشن ایگریمنٹ(IA) کے تحت رائیلٹی انتظام کے ذریعے پروسیسنگ شروع کردی۔SSGC اور JJVLکے درمیان MoUپردستخط ہوئے جو جون 2018تک جاری رہا،جب سپریم کورٹ آف پاکستان(ایس سی پی) نے از خود کارروائی کرکے MoUsکی منسوخی کو درست قرار دیا۔اس کے بعدSSGC نے JJVL کو گیس کی فراہمی بند کر دی اورپلانٹ 6ماہ تک بند رہا۔

بعد ازاں JJVL نے ایس سی پی کے سامنے منافع کی تقسیم کی بنیاد پر ایک تجویز پیش کی۔معزز عدالت نے ایک تیسری پارٹی اے ایف فرگوسن (AFFCO) کو اپنی جانب سے وصول کنندہ مقرر کیا اور SSGC اور JJVL دونوں سے مشاورت کے بعد، AFFCOکو ہدایت دی کہ آمدنی کی شیئرنگ کا ایک عارضی طریقہ کار وضع کرے۔اس کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جو ایس سی پی کے سامنے منظوری کیلئے پیش کیا گیااور معزز عدالت کے حکم نامہ مورخہ 29دسمبر،2018کے ذریعہ اس کی توثیق کی۔ معاہدے کی مدت 18ماہ کی تھی جو 20جون 2020کو مدت پوری ہونے پر از خود ختم ہو گیا۔لہذاہگیس کی فراہمی کا انتظام عبوری تھا اور غیر معینہ مدت تک نہیں تھا۔معاہدے میں مزید توسیع تکنیکی ضروریات،تجارتی فزیبلٹی،مالی استحکام اور اس میں شامل دونوں فریقوں کی باہمی رضا مندی پر مبنی ہوگی۔SSGCنے معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ بعض تکنیکی اور تجارتی پہلوؤں کی بنیاد پر کیا تھا۔SSGC نے حال ہی میں اگلے مراحل پر مطالعہ کے لئے ایک بین الاقوامی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کیں۔ کنسلٹنٹ نے فوری طور پرSSGCکو مشورہ دیا کہ انڈس لیفٹ بنک پائپ لائن(ILBP) سسٹم میں موجود گیس کی روانی معمولی نوعیت کی پائپ لائن گیس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سسٹم میں براہ راست داخل کی جائے توپائپ لائن اور اس سے منسلک تنصیبات پر کوئی منفی اثرات پیدا نہیں ہوں گے۔دوسرے الفاظ میں ایل پی جی /این جی ایل (نیچرل گیس لیکیویڈ) نکالے بغیر گیس کو براہ راست ٹرانسمیشن پائپ لائن نیٹ ورک میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔JJVL پر سکڑنے کی ویلیو10-8ایم ایم سی ایف ڈی کے آس پاس ہے۔چونکہ یہ مقدار ایس ایس جی سی کے ٹرانسمیشن سسٹم میں دستیاب ہو گی لہذا،گیس یوٹیلیٹی اس مقدار کو موثر طریقے سے اپنے ٹرانسمیشن نیٹ ورک میں شامل کر سکتی ہے۔اس سکڑنے والی مقدار کے استعمال کے لئے کئی تجارتی ذرائع دستیاب ہوں گے۔مقامی گیس ایل پی جی کے مقابلے میں بہت سستی ہے جس کی قیمت 2400روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔محض موازے کی خاطر اس طرح سے بچائی گئی 8سے 10 ایم ایم سی ایف ڈی گیس 4000,00گھرانوں کی آبادی کی ضروریات پوری کر سکتی ہے جو سکھر شہر کے برابر ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اوگرا کے اعداد و شمار کے مطابق جے جے وی ایل کی 76فیصد پیداوار سندھ میں تجارتی اور صنعتی صارفین کو ملتی ہے۔لہذا اس کو کسی بھی طرح سے ایک غریب آدمی کے ایندھن کی درجہ بندی میں نہیں لایا جاسکتا۔جے جے وی ایل اور ایس ایس جی سی کے مابین ایکسٹریکشن کے معاہدہ کا معاملہ ملک کے قانون ساز اداروں میں زیر بحث آیا ہے۔پیر کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک بریفنگ میں،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم نے ایس ایس جی سی کو سفارش کی ہے کہ قومی مفاد کے ساتھ ایس ایس جی سے کے بہترین مفاد میں مقامی ایل پی جی کی پیداوار شروع کرنے فیصلہ پرنظر ثانی کرے