|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2020

چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پی پی نے ہمیشہ عوام کے مسائل پر توجہ دی ہے۔آئین و قانون بتائیں جس کے تحت کراچی وفاق میں آسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ان کا حق نہیں دیا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی سیاست کی ہے۔ پیپلزاسکوائر منصوبے کے لیے ورلڈ بینک سے قرضہ لیا۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے سندھ حکومت نے منصوبہ مکمل کیا ہے۔

پورے کراچی کو بہتری کی طرف لے کر جائیں گے کیونکہ کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملیر میں بھی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔ کم وسائل میں عوام کو ریلیف دے رہے ہیں۔ 30 ستمبر تک بعض منصوبوں پر کام مکمل ہوجائے گا۔ آئندہ اولڈ سٹی ایریا میں بھی کام کریں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ڈرینج سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ہم اپنا ٹیکس ریونیو بڑھا رہے ہیں۔

سندھ سب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کرتا ہے۔ کراچی کے عوام کو ان کا حق دلائیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے چیئرمین پی پی نے کہا کہ عمران خان نے کراچی کے عوام سے کئے گئے ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کیا۔دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے استفسار کیا کہ مجھے وہ آئین و قانون بتا ئیں جس کے تحت کراچی وفاق میں آسکتا ہو؟انہوں نے واضح طور پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے دماغ میں اگر ایسی سوچ ہے تو وہ نکال دے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سب پاکستانی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم آئین کی پاسداری کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی صوبے کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مسائل کی وجہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں حق نہ دینا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی واحدحکومت ہے جووفاق کی جانب سے صوبائی معاملات میں مداخلت پر نہ صرف فوری ردعمل دیتی ہے بلکہ اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہناتی ہے جس کی ایک جھلک کورونا وائرس کے دوران فیصلوں میں دیکھنے کو ملی تھی اور یہ ایک اچھی روایت ہے کہ صوبے اپنے آئینی وقانونی حقوق کا دفاع کریں کیونکہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ صوبوں کے جائز حقوق کا نہ ملنا ہے۔

جس کی وجہ سے غریب صوبے پسماندگی کا شکار ہیں۔ جس طرح سندھ حکومت یہ بات کھل کر کہتی ہے کہ سب سے زیادہ ریونیو سندھ دیتا ہے مگر اس کے باوجود بھی سندھ کو اس کا جائزحق نہیں ملتا، اگر دیکھاجائے تو بلوچستان ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جس میں اہم میگا منصوبوں سے وفاق کو ایک بڑی رقم ملتی ہے مگر بلوچستان کو آج تک گیس، ریکوڈک، سیندک جیسے اہم منصوبوں سے وہ رقم نہیں ملی جوملنی چاہئے تھی،انہی وجوہ کی بناء پر وفاق اور صوبوں کے درمیان خلیج جنم لیتی ہے، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں مگر وفاقی حکومتوں کے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی۔

جہاں تک کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دینے کا معاملہ ہے تویہ ایک خطرناک سوچ ہے، اس کی ہرگز حمایت نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک طرح سے سندھ کے عوام کو وفاق پاکستان سے متنفر کرنے والی بات ہوگی جس سے دوریاں مزید بڑھیں گی لہذا ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرنا چائیے جو ملک کو مزید انتشار کی طرف لے جائے۔ ویسے غیر جانبدار ہوکر دیکھا جائے تو سندھ حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ بہتر نظر آتی ہے، اگر چھوٹے چھوٹے معاملات کو جواز بنا کر کسی صوبے کے علاقے کو وفاق اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرے گاتو کل کلاں کو صوبے بھی متفق ہوکر وفاق کے خلاف کوئی بھی فیصلہ لینے پر مجبور ہوں گے۔

اس سے قبل بھی کراچی کو صوبہ بنانے کی بات کی گئی جسے قومی وحدتوں کے لحاظ سے کسی صورت قبول نہیں کیا گیا لہٰذا مسائل کو حل کیاجائے،وفاق کے ماتحت دیگر معاملات بھی ہیں انہیں بہتر کیاجائے پھر کراچی کاسوچیں۔کیا لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے تمام مسائل کو وفاقی حکومت نے حل کرلیا کہ اسے اب کراچی کا غم کھائے جارہا ہے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے اس لیے تمام برائیاں سندھ میں نظر آرہی ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرے اور سندھ حکومت کو اطمینان سے کام کرنے دے۔ نیزبلوچستان حکومت کو بھی چاہئے کہ این ایف سی ایوارڈ سمیت صوبے کے منافع بخش منصوبوں کی جائز رقم کے حوالے سے دوٹوک مؤقف وفاق کے سامنے پیش کرے اور اپنا حق لینے میں کسی پش و پیش سے کام نہ لے۔