کراچی:بلوچ یکجتی کمیٹی کراچی کے زیر اہتمام بلوچ طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔احتجاجی مظاہرے میں طالب علموں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی میں فائنل ائیر کے طالب علم تھے۔حیات بلوچ جو سی ایس ایس کی تیاریوں میں مصروف تھے ان کا مقصد تھا کہ وہ سی ایس ایس کے بعد اپنی صلاحیتوں کو بلوچستان کے غریب اور پسماندہ عوام کے فلاح و بہبود کے لئے صرف کریں لیکن بد قسمتی سے ہمارے تحفظ کے ذمہ داران کے ہاتھوں ہمارے قومی مستقبل کا قتل بڑی درندگی کے ساتھ کیا گیا۔
مقررین نے مزید کہا کہ طالب علم حیات بلوچ کا بے دردی سے قتل کہی سوالات کو جنم دیتا ہے؟ بلوچستان میں طالب علموں کو کیوں تحفظ حاصل نہیں؟حیات بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟یہ قتل دراصل ایک طالب علم کا نہیں بلکہ یہ قتل ایک خاندان کے ارمانوں کا قتل ہے۔یہ قتل قوم کے مستقبل کا قتل ہے۔یہ قتل طالب علموں کی آزادی کا قتل ہے۔یہ قتل انصاف کا قتل ہے۔
اس قتل نے طالب علموں اور خاص کر بلوچ معاشرے میں ایک خوف کو جنم دیا ہے۔اسی خوف نے بلوچ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں کو الجھنوں میں ڈال دیا ہے،اسی خوف کے ماحول نے تقسیم در تقسیم کی کیفیت اختیار کرلی ہے اور اسی خوف کو ایک منظم انداز میں تقویت فراہم کیا جارہا ہے۔
کسی ملک کے قانون میں یہ درج نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بے گناہ شخص کو قتل نہیں کرسکتے لیکن یہاں آئین اور قانون کو پامال کرکے ایک نوجوان کو اسکے والدین کے سامنے قتل کردیا گیا۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طالب علموں کے تعلیمی سلسلے کو روکنے کے لئے کئی عرصوں سے تعلیمی سرگرمیوں پہ قدغن لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور دیگر کئی مسائل نے طالب علموں میں بے چینی اور اضطراب کے ماحول کو جنم دیا ہے
ماورائے عدالت گرفتاری سے لیکر ماورائے عدالت قتل عام نے بلوچستان کے ہر طبقے کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔
مقررین نے آخر میں کہا کہ بلوچ طالب علموں سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو شہید حیات بلو۔ کے قتل کے خلاف یکجا ء کو کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے اعلی ادارے حیات بلوچ کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو نہ صرف سزا دیں بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں کہیں ایسا نہ ہوا کہ ہم اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے پہ مجبور ہوجائیں۔