|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2020

میاں محمدنوازشریف ملک میں جب موجود تھے تو اس دوران ان کی طبیعت کے حوالے سے زیادہ ہلچل دکھائی رہاتھا۔ن لیگ اورحکومت کے درمیان علاج کو لیکر بیانات داغے جارہے تھے مگر اس بات پر بھی زیادہ غور کیاجارہا تھا کہ بیماری کی شدت کو جس طرح سے بتایا جارہا ہے خدانخواستہ نواز شریف کی جان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو اس سے حکومتی ساکھ متاثر ہوجائے گی لہذا ہر پہلو کاجائزہ لیا گیا اور اس کے بعد نوازشریف کے ٹیسٹ اور علا ج سے جڑے دیگر معاملات کو پرکھنے کیلئے باقاعدہ بورڈ تشکیل دی گئی تاکہ وہ بیماری کی حقیقی معنوں میں تشخیص کرسکیں جس کے بعد بورڈ اور وزیر صحت ڈاکٹریاسمین نے بیماری کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ صورتحال کو گھمبیر بھی قرار دیا گیا جس کے بعد انہیں بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت ضمانت پر دی گئی۔

مگر چند روز گزرنے کے بعدحکومتی وزراء کی جانب سے سوالات اٹھاناشروع ہوئے اور اب دوبارہ صورتحال اسی طرح بن چکی ہے کہ نوازشریف علاج کی بجائے بیرون ملک بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں لہذا وفاقی حکومت نے انہیں دوبارہ وطن واپس لانے کافیصلہ کیا ہے۔ صحت کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات اور خدشات کی موجودہ صورتحال پر وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس میں جعل سازی کی باتوں کو مسترد کردیاہے۔ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی رپورٹس میں کوئی جعل سازی نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیمپلز کی باقاعدہ تصدیق سرکاری کے علاوہ نجی لیبز سے بھی کی گئی۔

اور تقریباً سب کی رپورٹس ایک جیسی آئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ یقینی بنائیں رپورٹس تصدیق شدہ ہوں ہم نے یہ معلومات میڈیا سے بھی شیئر کیں۔وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت جو شکوک پیدا ہورہے ہیں اور ن لیگ اور نوازشریف نے جو رویہ اختیار کیا اس سے تکلیف ہورہی ہے، یہ ایک اخلاقی تقاضہ ہے کہ مجرم ہونے کے باوجودہم نے انہیں سہولیات دیں اور ان کا علاج کرایا لیکن ان ساری باتوں کے بعد اس طرح کی باتیں تکلیف دہ ہیں۔یاسمین راشد نے مزید کہا کہ اگر نوازشریف مقررہ وقت پر واپس آجاتے یا پھر وہاں اپنا علاج کراتے تو یہ شکوک و شبہات پیدا ہی نہیں ہوتے۔

واضح رہے کہ حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں برطانوی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ضمانت ختم ہوچکی، ان کا اسٹیٹس مفرور کا ہے اس لیے انہیں وطن واپس لانے کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔بہرحال نوازشریف کے علاج اور ان کی صحت کے حوالے سے اخلاقی طورپر ن لیگ ایک جامع رپورٹ بیرون ملک معالجین اور اسپتال کے سامنے لائے تاکہ ان خدشات وشہبات کا خاتمہ ہوسکے۔

چونکہ یہ سیاسی ماحول اور روایات کے حوالے سے مستقبل میں منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاسی حوالے سے کشیدگی کے باعث ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی جس کا اثر پارلیمان کی بالادستی پر براہ راست پڑا ہے انتقامی سیاست کے باعث جمہوری حکومتوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ یہ ذمہ داری بھی سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے کہ تمام تر اختلافات سے بالاتر ہوکر منفی سیاست کو ترک کرتے ہوئے ایک اچھی روایت قائم کریں تاکہ عوام کا بھروسہ عوامی نمائندگی رکھنے والوں پر برقرار رہ سکے۔