|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2020

تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کے چئرمین حاجی عبداللہ خان صافی ایپکا بی ایم سی کے صدر و رہنماہ عبدالباسط شاہ ڈاکٹر اعجاز بلوچ ڈاکٹر طارق بلوچ وائس چیرمین ڈاکٹر الیاس بلوچ حاجی خوج محمد میر زیب شاھوانی نے احتجاجی کیمپ میں آۓ مختلف وفود سے خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ 3 ستمبر کو فیصلہ کن دھرنہ دیا جاۓ گا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی پہلی میڈیکل یونیورسٹی کا قیام دسمبر 2017 کو عمل میں آیا یکم اگست 2018کو وائس چانسلر کی تعیناتی عمل میں آئ اسی طرح رجسٹرار جو کہ یونیورسٹی کا اہم پوسٹ ہے ایک بد نام زمانہ شخص جو کہ بلوچستان یونیورسٹی سے سات سال سے غیر حاضر تھا کو تعینات کیا گیا اب تک انکی تعیناتی سمجھ نہیں آرہی کہ آیا وہ باقاعدہ تعینات بھی ہوۓ ہیں کہ نہیں مگر ادارے کی تباہی کا باعث بحثیت رجسٹرڈ بنے ہوۓ ہیں۔ یکم اپریل 2019کو میڈیکل یونیورسٹی نے باقاعدہ کام شروع کیا تمام اختیارات یونیورسٹی کو منتقل ہوگئے۔
اس کے بعد مسائل سامنے آنے شروع ہوۓ ملازمین کے سروس رولز قواعد و ضوابط جاری نہیں کئے گئے جو کہ یونیورسٹی ایکٹ کے سراسر واضح خلاف ورزی ہے ملازمین کی تنخواہوں کے مسائل جیسا کہ نہ تو جی پی فنڈ کٹوتی کا نہ ہی گروپ انشورنس اسی طرح ٹیکسیز کی کٹوتی کا کوہی حساب وضع نہیں کیا جاسکا۔ ریٹائر اور فوت ہونے والے ملازمین کے واجبات تاحال ادانہیں کیے جاسکے۔ طلباء کی فیسوں میں من چاہا اضافہ سکالرشپ کی بندش ہاسٹلز کی بندش اسی طرح سیلف فنانس سیٹوں کا اجرا اور داخلہ پالیسی میں من مانیاں سامنے آئ۔
میڈیکل یونیورسٹی کی نہ تو اپنی کوہی زمین ہے نہ ہی کوہی بلڈنگ امتحانات اب تک بلوچستان یونیورسٹی منعقد کررہی ہے پوسٹ گریجوایشن کےکسی طرح کے کورسیز شروع نہیں کیے جاسکے اب تک یونیورسٹی میں کسی قسم کا تحقیقی کام شروع نیں کیا جاسکا۔
ایک حقیقی میڈیکل یونیورسٹی کے کام کسی طرح نہیں کیے جاسکےبلکہ بولان میڈیکل کالج جو کہ صوبہ کا اثاثہ ہےکا کام بری طرح متاثرہوا جیسا کہ ٹیچنگ اسٹاف صوباہی حکومت کے زیر کنٹرول نہ رہےنہ ہی حکومت کہ پاس ماہرین کی تعیناتی کے اختیارات رہے ٹرامہ سینٹر کے مسائل سامنےآئے فیکلٹی یونیورسٹی کےزیر کنٹرول جب کہ صوبے کے بڑے اور اہم ہسپتال ٹرامہ سینٹر وغیرہ حکومت کے زیر انتظام جس کی وجہ سے بہت سے انتظامی مسائل سامنے آۓ دیگر صوبوں میں اس طرح کے تجربات ناکامی کا شکار ہوۓ تو وہاں پر حکومتوں نے فوری طور پر حل نکالا اور ان اثاثہ جاتی میڈیکل کالجز کو دوبارہ حکومت کے زیر انتظام کر کے میڈیکل یونیورسٹی کو نۓ کالجز دیے گۓ جو کہ دوسرے اضلاع میں واقع ہیں جیسا کہ خیبر میڈیکل کالج کا خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے الگ ہونا اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاھور سے علامہ اقبال میڈیکل کالج کا الگ ہونا۔ میڈیکل یونیورسٹی ایک بڑا ادارہ ہوتاہے اسکے اپنے ملازمین اپنےشعبےہوتےہیں اس طرح نہ صرف یونیورسٹی اپنا کام درست سمت میں کر پاتی ہےبلکہ روزگارکے مواقع بھی میسر اتےہیں۔
ان تمام مسائل کو مد نظر رکھتےہوۓ طلباء و ملازمین پر مشتمل الائنس تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ سیکٹرکو بچانے کی خاطر بولان میڈیکل کالج کو بحال کیا جاۓ تحریک کو نظر انداز کیا گیا تب ہی احتجاج پرمجبورہوۓ
مورخہ 17دسمبر 2019 کو صوباہی اسمبلی کے سامنے دھرنہ دیا گیا جہاں ایک صوباہی وزیر زمرک اچکزی کے مداخلت یقین دہانی پر دھرنہ ختم کیا گیا اگلے ر
وز مزاکرات ہوۓ اور آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا
17جنوری 2020 کو گورنرہاوس میں گورنربلوچستان کی دعوت پر مزاکرات ہوۓ ایک بار پھر ہمارے موقف کو درست تسلیم کیا گیا وعدے کیے گۓ جو کہ بے سود ثابت ہوۓ۔
10فروری کو وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنہ دیا گیا اور وزیراعلیٰ سے مزاکرات ہوۓ یقین دہانی کراہی گئ وعدے ہوۓ مگرعمل درآمد کچھ نہ ہوا۔
13 فروری کو ایک بار پھر صوباہی اسمبلی کے سامنے دھرنے کے موقع پر مزاکرات ہوۓ چار صوباہی وزرا نے تحریری معاہدے پر دستخط کئیے جن میں ظہور بلیدی ضیا لانگوسلیم کھوسہ اور زمرک اچکزی شامل تھے مزاکرات سے پہلے تشدد اور گرفتاریاں بھی ہوہی مگر چند دن ہی میں مزاکرات کے برعکس کاروائیوں نے دوبارہ آحتجاج پر مجبور کیا 24 فروری کو ایک بار پھر دھرنہ دیا گیا گرفتار یاں اور تشدد کے واقیات ریکارڈ ہوۓ
27فروری کو چیف جسٹیس بلوچستان ہاہی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے چمبرمیں تحریک کے قائدین کو بلایا جہاں وائس چانسلر اور رجسٹرار پہلے سے موجود تھے تمام معاملات طے پاۓ چیف جسٹس نے بھی ہمارے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوۓ بااختیار افسران کو معاہدے کے لیے دھرنے بجوایا تحریری معاہدہ ہوا جس پر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سیکرٹری ہیلتھ اور ایڈشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ہاہی کورٹ نے دستخط کئیے اور طے پایا کہ چالیس دنوں میں صوباہی اسمبلی سے ترمیم کر کے بولان میڈیکل کالج کو دوبارہ حکومت کے زیر انتظام کر دیا جاۓ گا اس معاہدے کو ملک کے اہم اداروں کی حمایت بھی حاصل تھی جن کا نام قلم بند نہیں کیا جارہا۔
ان تمام معاہدوں پر عمل درآمد تو درکنار الٹا تحریک کے ساتھیوں اور قائدین کو ہراساں کیا جانے لگا جھوٹے مقدمات تنزلی تنخواہوں کی بندش معطلی یہاں تک کہ دھمکیاں اور گالم گلوچ بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سامنے آئ۔
20جون بجٹ سیشن کے موقع پر ایک بار پھر سے دھرنہ دیا گیا جو کہ دن رات جاری رہا 29جون کو صوباہی اسمبلی میں وزیراعلیٰ سے ایک بار پھر مزاکرات ہوۓ معاملات طے ہوۓ مگرباربار کے فریب کو مد نظر رکھتے ہوۓ تحریک نے ٹھوس نتیجے کے بغیر دھرنہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
14جولاہی کو پولیس نے تشدد اور دوا بول کر دھرنہ اکھاڑا اور ہم نے مجبور ہو کر پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا اور 16جولاہی کو دوبارہ اسمبلی جانے کی کوشش کی پورا شہر سیل کر دیا گیا جگہ جگہ پولیس کی نفری اور خاردار تاریں بچاہی گئ ٹی این ٹی چوک کے قریب رات گزارہی صبح ایک بار پھر پولیس نے داوا بول دیا۔ رات کو بولان میڈیکل کالج کے تمام ہاسٹلز کی بجلی پانی اور گیس منقطع کر دی گئ میڈیکل ہاوس افیسرز اور امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کو ہراساں کیا گیا تحریک کے زیر انتظام بولان میڈیکل کالج تا صوباہی اسمبلی سات کلومیٹر پیدل مارچ کیا گیا جس میں طالبات بھی شامل تھیں اب کی بار روکنا ممکن نہ تھا صوباہی اسمبلی دھرنہ دینے میں کامیاب ہوۓ مگر اگلے روز حسب روایت صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے پولیس نے داوا بول دیا اور گرفتاریاں کی کچھ دیر بعد گرفتار ساتھیوں کو پریس کلب کے قریب اتار دیا گیا تحریک نے منان چوک جوکہ کوئٹہ کا سب سے اہم کاروباری مرکز ہے کو دھرنہ دے کر بند کردیا ایک بجے انجمن تاجران کی درخواست اور عوام کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوۓ تحریک دھرنہ ختم کیا اور اسی روز یعنی 18جنوری کو رات کے وقت وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنے دینے میں کامیاب ہوۓ رات بارہ بجے قبائلی عمائدین کی درخواست پر ایک بار پھر مزاکرات ہوۓ جس میں وزیراعلیٰ کے مشیر قبائلی عمائدین ضلعی انتظامیہ سیکرٹری ہیلتھ گورنر بلوچستان کے پرنسپل سیکرٹری وائس چانسلر اور رجسٹرار موجود تھے تمام معاملات ایک بار پھر سے طے پاگئے باقاعدہ اعلانات ہوۓ کالج بحالی کی یقین دہانی کراہی گئ اگلے روز منٹس اور وزیراعلیٰ کے احکامات خط کی شکل میں جارہی ہوۓ جس میں آنے والے کابینہ کے اجلاس میں بی ایم سی بحالی بل سلف فناس پر کمیٹی کا نوٹیفکیشن تنخواہوں جارہی ہونا مقدمات اور انتقامی کاروائیوں کا خاتمہ شامل تھا مگر آفسوس کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں ترمیمی بل کا شامل نہ کیا گیا بلکہ ایک بھی شق پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
مورخہ 3دسمبر کو وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنہ دیا جاۓ گا جو کہ بولان میڈیکل کالج کی بحالی تک جاری رہے گا اور اس دوران کسی قسم کی بات چیت مزاکرات نہیں ہونگے۔