مشہور بلوچ قوم پرست سیاسی لیڈر، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبرخان بگٹی نواب محراب خان کے ہاں بارکھان میں 12 جولائی 1927ء میں پید ا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ پچاس سال پہلے انیس سوچھیالیس میں اپنے قبیلہ کے انیسویں سردار بنے انیس سوانچاس میں انہوں نے حکومت کی خصوصی اجازت سے پاکستان سول سروسز اکیڈمی سے پی اے ایس (اب سی ایس ایس) کا امتحان دیئے بغیر تربیت حاصل کی۔
بی بی سی کی سابق نامہ نگار اور کتاب ”دی ٹائیگرز آف بلوچستان“کی مصنفہ سلویا میتھن جو نواب اکبر بگٹی سے آج سے ساٹھ سال پہلے 1946ء میں ملی تھی، لکھا کہ نواب اکبر شہباز خان بگٹی کی ایک جھلک دیکر کسی بھی رومانی ذوق رکھنے والے کی آنکھوں کو تسکین پہنچتی ہے چھ فٹ سے کچھ بڑھ کر درازقد، وجاہت سے مزین چہرہ مہرہ،گھنے اور چمکیلے سیاہ گھنگریالے بال، نہایت موزوں چھدری ہوئی داڑھی، خوبصورت اور ذہانت سے بھری آنکھیں،حس مزاح اور دلکش ناک نقشہ غرض ایک ایسا شخص جس سے آپ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ آپ ہزار بار جوکچھ بھی کہیں مگر یہ وہی اکبر بگٹی تھا۔
جس نے ابراھم لنکن کی پیروی میں 1948میں بگٹی قبائل کے قبضے میں موجود ہزاروں غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ نواب اکبر خان بگٹی بعد میں سند ھ اور بلوچستان کے شاہی جرگہ کے رکن نامزد ہوئے۔ انیسو اکیاون میں بلوچستان کے گورنر جنرل کے مشیر مقررہوئے،وہ انیس سو اٹھاون میں وزیر مملکت کے طور پر وفاقی کابینہ میں شامل رہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں وہ چھوٹی قومیتوں کے حقوق کی علمبردار جماعت (نیشنل عوامی پارٹی) نیپ میں شامل ہوگئے۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے دور میں وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی قید رہے۔
جب 1973ء میں سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلی بنے تو نواب اکبر بگٹی کے نیپ کی قیادت سے اختلافات ہوگئے جب 1973ء ذوالفقاعلی بھٹو نے نیپ کی حکومت کو برخواست کی اور نواب اکبر خان بگٹی کو صوبہ کا گورنر مقرر کردیا وہ دس ماہ گورنر رہے۔ لیکن بعدمیں ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کی بناء پر مستعفی ہوگئے اور 1973ء میں ہی آپ نے ایئر مارشل اصغر خان کی سربراہی میں قائم تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ نواب اکبر خان بگٹی کو قدیم، یونانی ہیرو کے رنگ میں رنگنے کا سارا کریڈٹ حکومت کو نہیں دیا جاسکتا۔
نواب اکبر بگٹی میں ایسا ہمیشہ کچھ نہ کچھ تھا جو انہیں دیگر قبائلی سرداروں سے ممتاز کرتا تھا۔ان کے مخالفین ان پر نیپ حکومت کی برطرفی کے بعد بلوچستان کا گورنر بننے کو ان کے اسٹبلیشمنٹ کا حامی ہونے کا الزام لگاتے ہیں بظاہر نواب اکبر بگٹی کو بھی اپنے گورنر بننے پر کوئی بہت زیادہ فخر نہیں تھا۔ ہمارے بزرگ علی احمد خان سے ایک بات چیت کے دوران اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ نیپ والوں نے مجھ پر جوتہمتیں لگائی ہیں اس پر ردعمل کے طور پر میں بھی وہی کرسکتا تھا لیکن نہیں اس لیے کہ میر ی رگوں میں بھی بلوچ خون دوڑ رہا ہے۔
بلاآخر1988ء میں بلوچستان نیشنل الائنس کے نام پر پارٹی نے بلوچستا ن بھر سے بھاری اکثریت حاصل کی اور فروری انیس سو نواسی سے لیکر اگست انیس سو نوے تک وہ بلوچستان کے منتخب وزیر اعلیٰ رہے۔ بے نظیر بھٹو نے بلوچستان اسمبلی کوتحلیل کردیا اور 1993ء کے عام انتخابات میں وہ ڈیرہ بگٹی سے اپنی نئی جماعت جمہوری وطن پارٹی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اردو زبان کا بائیکاٹ کیا انہوں نے بعد میں 1997ٗٗٗٗٗء اور 2002ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ نواب اکبر خان بگٹی کی کوہلو کے مری قبائل سے رشتے داری تھی۔
انہوں نے سال 2003ء سے 2006ء تک مری سرداروں کیساتھ ملکر صوبے کے حقوق کے لئے قوم پرستوں کی قیادت کرتے رہے اور بلاآخر انہوں نے حقوق کے حصول کیلئے پہاڑوں کا رخ کیا اور کئی مہینوں پہاڑوں میں رہے اور 26اگست 2006ء کو 79سال کی عمر میں ایک آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی کو اپنے 37ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت سے پورے بلوچستا ن کے حالات کشید ہ ہوگئے۔ مشتعل مظاہرین نے سرکاری عمارتوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں احتجاج شروع ہوگیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا بڑا ہاتھ ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت سے پوری بلوچ قوم میں شدید رنج و غم اور غصہ پیدا ہوگیا اورآج کا یہ دن نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ نواب صاحب کی شہادت نے بلوچستان میں ایک تاریخ رقم کر دی اور بلوچ قوم اسے ایک ہیرو کے طور پر یاد کرتی ہے اور انہیں ”ڈاڈائے بلوچستان“کا لقب دے دیا ہے۔