ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے متعلق چند ایک سیاسی شخصیات عموماََ پیشنگوئیاں اور اپنے تجزیے دیتے رہتے ہیں جن کی رائے کو بعض حلقے اہمیت بھی دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کے بااثر حلقوں کے ساتھ بیٹھک اور ہر وقت کے رابطے ہیں جبکہ ان کا ایک طویل تجربہ بھی اپنی سیاسی زندگی کے اتارچڑھاؤ سے وابستہ رہ چکاہے مگر یہ کہنا کہ ان کی تمام ترمعلومات مصدقہ ہوتی ہیں تو یہ سوفیصد درست بھی نہیں۔ بہرحال شیخ رشید کا شمار ملک کے ان سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے جو اکثر وبیشتر اشاروں میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جن کو اہمیت ملتی ہے۔
البتہ اسی حکومت کے دورانیہ میں انہوں نے شہبازشریف اور نواز شریف کے حوالے سے چند ایک سیاسی تبصرہ کئے جوان کی معلومات کی بنیاد پر تھیں جو درست ثابت نہیں ہوئے۔یہ ضرور ہے کہ شہبازشریف کے متعلق ان کے حالیہ بیانات اور تبصرے حقائق کے برعکس ہی نکلے ہیں۔ بہرحال شیخ رشید اپنے تبصروں کی وجہ سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں،اب ایک بار پھر شیخ رشید نے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رائے دی ہے۔ گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک تقریب کے دوران میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ریفرنس دائر ہونے تک عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔
لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیس بہت سیریس ہے، دونوں اندر جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیب آزاد ادارہ ہے، کسی کی بھی درخواست پر کارروائی کر سکتا ہے۔سینیٹ سے دو بلوں کے مسترد ہونے پر شیخ رشید نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر اپوزیشن بے نقاب ہوئی ہے، اپوزیشن چاہتی ہے کہ نیب کو ختم کیا جائے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی کا ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن لگتا نہیں ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو بڑا دکھ ہے کہ نواز شریف ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
عمران خان کی کوشش ہے کہ نواز شریف کو واپس لایا جائے۔اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی سے متعلق بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ فضل الرحمان کا بھی اپوزیشن پر اعتبار نہیں رہا، اے پی سی ابھی دور ہے اور لوگ اپوزیشن کے پیچھے نہیں نکلیں گے لیکن اگر مدارس کے بچے سڑکوں پر نکلے تو درست نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور فضل الرحمان کی ملاقات ناکام رہی، فضل الرحمان نے شہباز شریف سے چبھتے سوالات کیے۔شیخ رشید کے مطابق شہبازشریف اور حمزہ شہباز کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے اس لئے وہ کبھی بھی گرفتار ہوسکتے ہیں مگر سیاسی حالات فی الحال اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
اوراس حوالے سے ایک اہم بیٹھک بھی لگ چکی تھی کہ اپوزیشن کو موجودہ حالات کے تناظر میں ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے تاکہ ملک میں سیاسی ماحول بہتر رہ سکے جس طرح کی معاشی صورتحال کا سامنا ملک کو کرناپڑرہا ہے اس سے سیاسی کشیدگی منفی اثرات مرتب کرے گی لہٰذا شہبازشریف کی گرفتاری کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔جہاں تک اپوزیشن کی اے پی سی کا معاملہ ہے تو اس میں اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے لحاظ سے سیاسی حالات کے مطابق فیصلے کررہی ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی کسی جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے گریز کررہی ہیں ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح گرفتاریوں کے حوالے سے انہیں ریلیف ملے لہٰذا وہ بھی سیاسی ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرینگے جبکہ نوازشریف کی واپسی کے آثار فی الحال دکھائی نہیں دے رہے جب تک اندرون خانہ معاملات بہتر نہیں ہونگے نوازشریف کی واپسی تعطل کا شکار رہے گی۔