|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2020

شہرِقائد میں مون سون کا چھٹا اسپیل ایسا برسا کہ اللہ کی امان، ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے- بارش کے منہ زور پانی کا جہاں اور جس طرف جی چاہا اس طرف گیا – بپھرے پانی سے نا تو پوش علاقے بچے اور نہ ہی کچی آبادیاں محفوظ رہیں – پیر سے شروع ہونے والی بارش نے کراچی والوں کی ایسی درگت بنائی ہوئی ہے کہ پوچھیں مت بس اللہ پاک سب خیر کرے۔ آج صبح سے صدر پھر اللہ والی چورنگی، طارق روڈ، کورنگی، کالا پل، شاہراہ فیصل، سندھی مسلم سوسائٹی، شاہراہ قائدین، نمائش، ایم اے جناح روڈ سمیت دیگر جگہوں کا نظارہ کیا،مسلسل بارش کی صورتحال کے دوران مجھ سمیت تمام دوست کچھ ایسی خبریں دے رہے ہیں۔

فلاں جگہ پانی داخل ہوگیا۔
فلاں جگہ پانی نے تباہی مچادی۔
فلاں جگہ پانی نے کروڑوں کی املاک تباہ کردیں، وغیرہ وغیرہ۔

شہر کے مختلف علاقوں میں پبھرے پانی کے ستائے کئی مجبور اور بے بس چہرے دیکھے جن کو دیکھ کر بہت دل افسردہ ہوا رہی سہی کسر موبائل پرموصول ہونے والی مختلف علاقوں کی خبریں اور ویڈیوز نے پوری کردی۔ اس ساری صورتحال کے بعد دل بہت افسردہ تھا اور میں مسلسل پانی کو کوستا رہا۔دن بھر یہی کیفیت رہی۔ تقریباً 5 بجے گھر پہنچا۔ نہانے کے بعد آکر لیٹا تو آنکھ لگ گئی۔

میں کھلے سمندر میں ہوں دور دور تک صرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ پہلے تو میں کچھ سمجھ نہ سکا ایسی عجیب کیفیت میں کروں تو کیا کروں؟

اکیلی چھوٹی سی بوسیدہ کشتی پر میں؟ یاخدا یہ۔کیا ماجرا ہے۔
اسی اثناء میں میرے کانوں کو ایک آواز سنائی دی، کیسے ہو؟
میں بے اختیار ادھر ادھر دیکھنے لگا کون ہے؟

کسی کو نہ پاکر میں حیریت زدہ تھا کہ آواز کس نے دی اور یہ ہے کون؟
آواز پھر آئی۔ تم مجھ سے بھلا کیوں ناراض ہو۔ مجھ سے کیا مسئلہ ہے؟
اضطراب کی کیفیت مزید بڑھنے لگی۔ بے ساختہ میری آواز نکلی کون ہو سامنے آؤ۔
ارے مجھے تم صبح سے بْرا بھلا کہہ رہو اور پوچھتے ہو کون ہو؟

“میں پانی”۔۔۔!

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اسکا جملہ دہرایا “پانی”؟

جواب آیا ہاں “پانی”۔۔

دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔میں نے زیرِ لب یہ جملہ ادا کیا اب بھلا پانی کب سے بولنے لگا؟
پھر آواز آئی جب کہیں بھی پانی داخل ہوسکتا ہے۔ڈبو سکتا ہے اور تباہ بھی کرسکتا ہے تو بھلا بول کیوں نہیں سکتا؟
میرے اوسان آہستہ آہستہ بحال ہوئے۔میں نے کہا تو کیا غلط ہے تم نے کئی گھر، گلیاں، دکانیں اور سڑکیں ڈبو دیں۔ کروڑوں روپوں کی املاک تباہ کردیں۔ سینکڑوں لوگ بے گھر کردیئے اور تو اور کئی جانیں بھی لیں۔

اچھا یہ سب میں نے کیا؟
ہاں۔بالکل تم نے ہی کیا اس میں کوئی شک ہے؟

ایک بات کاجواب دو۔ پینے کیلئے، نہانے، دھونے، گھر بنانے، پاک ہونے غرض ہرچیز کیلئے میری ضرورت ہے۔ اگر ایک دن کیلئے میں تمہاری زندگی سے غائب ہوگیا تو سوچو کیا ہوگا؟

میں نے کہا کہ یہاں بات اہمیت کی نہیں ہورہی بلکہ نقصان کی ہورہی ہے۔ پانی بولا۔ میرا سوال وہی ہے۔ صرف ایک دن میرے بغیر اپنی زندگی کا تصور کرو اور پھر جواب دو۔ میرے بغیرکوئی جاندار اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ بارش نہ ہو تو گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہو۔ کچھ گھنٹے آسمان سے برسا وہ بھی تمہاری ضرورت کے مطابق مگر تم لوگوں نے اپنی غلطیوں، ناکامیوں اور کوتاہیوں کی ذمہ داری مجھ پر ڈال کر مجھے ہی قاتل، درندہ اور پتہ نہیں کیا کیا بنا ڈالا۔ میں اللہ کی بیش قیمتی نعمت ہوں اور تم ہی مجھے ابرِ رحمت کہتے نہیں تھکتے ہو۔جب سنبھال نہیں سکتے تو بار بار اپنی دعاؤں میں اللہ سے مجھے کیوں مانگتے ہو اور اگر ابرِ رحمت برسے تو ہاہاکار مچا دیتے ہو۔

شرم کرو۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ ڈرو اس وقت سے جب تم رب ذوالجلال سے مجھے مانگتے مانگتے تھک جاؤگے اور مجھے اس قادر مطلق کا حکم نہ ہوا۔ پھر کیا کرو گے؟۔
اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں اپنے کمرے میں موجود تھا۔ تو وہ کیا تھا جو میں نے ابھی دیکھا۔پورا منظر دوبارہ سے کھلی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔میں نے سوچا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا۔یقینا “پانی”سو فیصد درست کہہ رہا تھا۔ ساری غلطی ہماری ہے۔ہم واقعی ہی انتہائی نااہل اور نکمے لوگ ہیں۔ ہم اپنے سیوریج کے تباہ حال نظام کے باوجود بارش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ہم نالوں پر تجاوزات قائم کرتے ہیں۔

اورباقی ماندی نالوں کو گندگی سے بھر کر بھول جاتے ہیں۔ ہم اپنے گھر، بلڈنگ، مالز،اسکول، کالز، یونیورسٹیز اور تو اور سڑکیں بناتے وقت بھی نکاسیِ آب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ اب آجائیں دوسری طرف ہم سے زیادہ قابل اور باکمال لوگ ہمارے ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ہمارے انتہائی محترم نمائندے ہیں۔ جو بارش کی پیشگوئی کے باوجود کسی قسم کے اقدامات کی زحمت محسوس نہیں کرتے۔ بڑا تیر مارا تو ہنگامی حالات کا اعلان کیا،افسران اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

افسران اور عملے کو بھی پتہ ہے کہ جن صاحب نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے وہ خود گھر میں بیٹھ کر اپ ڈیٹ لیں گے تو “جیسے پیر ویسے ہی خلیفے” نیچے کا عملہ بھی گھر سے بیٹھ کر صورتحال پرصاب بہادر کو مسلسل اپ ڈیٹ دیتا رہتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ آپ نے پیر سے شروع ہونے والی بارش میں دیکھ لیا ہے۔ سائیں سرکار ہو یا بھائی لوگ سب کے سب ایک جیسے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے پیشگی اطلاع دی اور خبردار بھی کیا کہ کراچی میں شدید بارش ہوگی۔ میئر کراچی جن کے دل میں کراچی کا درد ہے کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کراچی کے درد کی شدت ایسی ہے کہ وہ اس پر مسلسل رو رہے ہیں۔

اور روتے روتے ہی انہوں نے اپنا ٹرن اور مکمل کرلیا مگر عوام کیلئے مجال ہے کہ کچھ کیا ہو۔رہی سائیں سرکار تو سائیں تو پھر سائیں ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پیپلزپارٹی صوبہ سندھ کی حکمران جماعت ہے۔ کراچی کے مسائل کی ان سے بات کی جائے تو پی پی پی قیادت، وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزراء کی کہی گئیں باتیں عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ وزیراعلیٰ اورصوبائی وزراء کی باتوں سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں اول نمبر پر پہنچا ڈالا ہے۔

ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کوئی مسئلہ تو ہے ہی نہیں یہاں بس میڈیا سندھ بالخصوص کراچی کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ نہیں کرتا ہے۔ اب بھلا کیا بولیں اور کہیں۔ میرے نزدیک “پانی” کی تمام باتیں ٹھیک ہیں۔ یہاں “آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے” وہ چاہے عام آدمی ہو، سرکاری افسر ہو یا سیاستدان سب کے سب کراچی کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔