|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2020

شہر قائد میں طوفانی بارشوں کے بعد تاحال شہریوں کے مسائل کم نہ ہو سکے۔ بیشتر علاقے اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔۔ بجلی، نکاسی آب اور ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے جبکہ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔شہر کے کئی علاقوں میں تاحال کئی کئی فٹ بارش کا پانی موجود ہے اور شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ شہر میں ہر طرف کچرا اور گندگی کے ڈھیر موجود ہیں جن کو اٹھانے کے لیے تاحال کوئی انتظامات نظر نہیں آرہے۔بیشتر علاقوں میں دو سے تین روز بعد بھی بجلی بحال نہ ہو سکی، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بھی شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جبکہ پینے کا پانی بھی شہریوں کو میسر نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں مختلف علاقوں میں نکاسی آب کا جائزہ لیا اور صفائی کے احکامات جاری کیے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے شہر کے تمام اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کو کراچی آنے پر خوش آمدید کہیں گے۔وزیر اعلیٰ گزشتہ روز بجلی کی شکایات پر کے الیکٹرک کے دفتر بھی پہنچے اور دو سے تین روز تک بجلی کی بندش کی وجوہات جانیں۔سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو آگاہ کیا کہ الیکٹرک تنصیبات کے گرد چار چار فٹ پانی موجود ہے جس کی وجہ سے بجلی بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو فوری طور پر پانی نکالنے کے احکامات جاری کیے۔کراچی میں بارشوں کے دوران 21 اگست سے تاحال مختلف حادثات میں 42 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جس میں سب سے زیادہ اموات 27 اگست کو رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 19 تھی۔بہرحال کراچی میں اس وقت صورتحال انتہائی ابتر ہے مگر اس کے ذمہ دار کون ہیں کہ ایک ایسا شہر جو پورے ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے بدقسمتی سے اس میں نکاسی آب تک کا نظام موجود نہیں، یہ مسئلہ حالیہ بارشوں کا نہیں بلکہ اس سے قبل بھی یہی صورتحال رہی ہے کہ کراچی سے کچرا اٹھانے کے مسئلہ پر صوبائی اوروفاقی حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان سیاست دیکھنے کو ملی جو ایک دوسرے پر اس کا ملبہ ڈال رہے تھے۔

مگر کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں،البتہ یہ ضرورہے کہ کراچی میں عرصہ دراز تک راج کرنے والی جماعت خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتی ہے کراچی کاتمام تر کنٹرول ایک جماعت کے پاس تھی تمام تر انتظامی امور پر ان کا اثر تھا تو کیونکر اس جماعت نے کراچی سے صفائی سمیت نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے مستقل بنیادوں پر پالیسی مرتب نہیں کی اور کس کی اجازت سے تجاوزات قائم کیں یہاں تک کہ ندی نالوں پر بھی رہائشی پلاٹ بنانے کی اجازت دی گئی، قبضہ مافیا کے ساتھ کس کی ملی بھگت تھی آج جو صورتحال ہے یہ ماضی کے چند شخصیات کے ذاتی مفادات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

کراچی میں بڑی بڑی عمارتیں بنانے کی اجازت بغیر کسی پلاننگ کے کس نے دی اور اب بھی کراچی میں بڑی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے مگر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیاجارہا، اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ کراچی کے انتہائی اہم علاقے حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی میں ڈوب چکے ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورے شہر میں نکاسی آب کا کوئی خاص نظام موجود نہیں ہے مگر یہ مسئلہ سیاست اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے حل نہیں ہوگا خاص کر پیپلزپارٹی کو ذاتی دلچسپی دکھاتے ہوئے اس کو حل کرنا چاہئے کیونکہ سندھ حکومت کے پاس بلدیاتی اختیارات موجود ہیں اور سب سے پہلی ذمہ داری بھی پیپلزپارٹی کی بنتی ہے۔

جو سندھ میں حکومت کرتی آرہی ہے اگر صورتحال مزید گھمبیر ہوگی تو تب بھی اس کا جوابدہ پیپلزپارٹی ہی ہوگا لہٰذا دیگر جماعتوں کی تنقید کا جواب سیاسی بیان بازی کی بجائے عملی اقدامات اٹھاکر دی جائے تاکہ کم ازکم کراچی کے عوام اس گھمبیر صورتحال سے نکل سکیں۔امید ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کراچی کی موجودہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پراقدامات اٹھائے گی تاکہ کراچی کے شہریوں کو درپیش مسائل حل ہوسکیں۔