|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2020

ملتان: بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ تعلیم کسی بھی ملک،قوم،صوبے،سماج اور جمہوریت ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے اور تمام سنجیدہ اقوام تعلیمی ترقی کو مرکزیت کا درجہ دیتے ہیں کسی بھی ریاست میں برابر تعلیمی ترقی کیلئے ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر شہری کو یکساں مواقع بھی دے مگر بدقسمتی سے بلوچستان و سابقہ فاٹا کے علاقوں میں اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی خدا خدا کر کے پنجاب حکومت نے بلوچستان کے معروضی حالات اور تعلیمی زبوں حالی کے پیش نظر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے طلباء کیلئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم و ہاسٹل کی مفت سہولیات کا اعلان کیا۔

جس کے بعد بعض طلباء و طالبات نے تعلیم کے حصول کے لیے پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیامگر بدقسمتی سے حالیہ اسکالرشپس کے فیصلے نے طلباء وطالبات کو شدیدمایوس کرکے رکھ دیاہے۔ان خیالات کااظہار بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں نے ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ آپ بہتر سمجھتے ہوں گے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ایک صوبے سے دوسرے صوبے آتے ہیں تویقینا اس کے اثرات نہ صرف تعلیمی میدان میں واضح نظر آنے لگے بلکہ وفاقی اکائیوں کے مابین بڑھتی خلا کم کرنے،ثقافتی نفوذ اور ایک دوسرے کے روایات جاننے کا ایک سنہری موقع ملا۔

ایڈمشن کا عمل شروع ہوتے ہی تضادات سے بھرپور اخباری بیانات کی بھرمار نے طلباء کے اندر کنفیوژن پیداکیے رکھا ظاہر ہے پسماندہ علاقوں کے غریب بچے جو شاداں تھے کہ شاید انہیں بھی پڑھنے کا موقع ملے گا یونیورسٹی کی جانب سے اسکالرشپس کے خاتمے کا سن کر تلملائے ہوں گے،آشفتہ حالی نے ان کے روشن مستقبل کا خواب بے چراغ لالٹین کی مانند تاریک دکھایا ہوگا،وہ ضرور دکھی ہوں گے وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ چشم شوق کے ابھرتے دن اتنے ہی جلد بے مہر شاموں میں تبدیل ہونے کیلئے ہی تھے تو وہ حسین خواب دکھائے ہی کیوں گئے۔جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے۔

اس میں یونیورسٹی نے شروع دن سے اضطراب کی کیفیت برقرار رکھی کبھی وائس چانسلر کی جانب سے کہا گیا میرے اختیار میں نہیں کہ میں سیٹیں ختم کروں تو کبھی بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو یونیورسٹی پر بوجھ قرار دیا گیا مگر فیصلے کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹال مٹول سے کام لیا محترم وائس چانسلر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس کا اعتراف کیا کہ اس بار یونیورسٹی نے بلوچستان کے طلباء سے فیسیں وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس میں اکبر کنڈی صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کہ ادارے کو مالی مسائل کا سامنا ہے مگر سوال یہ ہے بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے اسکالرشپس دینے کا فیصلہ گورنمنٹ نے کیا ہے تو اسکالرشپس پر پڑھنے والے طلباء پر بندشیں سراسر زیادتی و ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ فیصلہ گورنمنٹ آف پنجاب نے کیا تھا گزشتہ سال پنجاب گورنمنٹ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اوپن میرٹ پر آنے والے طلباء کی اسکالرشپس کی بحالی کیلئے یونیورسٹی کو ایک لیٹر بھی بھیجا۔

مگر یونیورسٹی نے تاحال نہ صرف اس لیٹر کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ریزرو سیٹوں پر آنے والے طلباء کا بھی راستہ روکنے کا فیصلہ کیا بلوچستان کے طلباء یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ساتھ دوہرا جبر کیوں؟ اگر گورنمنٹ نے ایک فیصلہ کیا ہے تو یونیورسٹی کیوں اس کے برعکس طلباء کی تعلیم پر قدغن لگانا چاہتی ہے۔

بلوچستان کے طلباء پڑھنا چاہتے ہیں ان سے قلم چھین کر زیادتی نہ کریں حکومت یونیورسٹی کو پابند کرے کہ وہ ریاستی پالیسی کے برعکس فیصلوں سے اجتناب کرے۔اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم گورنمنٹ آف پنجاب سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کیوں گورنمنٹ کی پالیسی کے برعکس طلباء کے مستقبل کو داو پر لگانے کے خواہاں ہیں۔

ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان،وزیراعلیٰ پنجاب اور گورنرپنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں خدارا ایسے تعلیم دشمن فیصلوں کا نوٹس لیں۔ہم تمام سیاسی جماعتوں،اسٹوڈنٹس تنظیموں اور ہر باشعور،پڑھے لکھے علم دوست شخص سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خدارا اس فیصلے کیخلاف ہماری آواز بنیں۔