|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2020

ویسے بھی اگست کا مہینہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے لیے کوئی ایسا سورج لے کر طلوع نہیں ہوا جس میں بلوچستان نا رویا ہو چاہے 11 اگست بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزں جو کی ہمیشہ جدائی کا دن یا 26 اگست کا وہ خون آشام دن ڈاڈئے بلوچستان نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا دن یا 20 اگست میر جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی رحلت کا دن۔بلوچستان اپنی جغرافیائی وجود کی اہمیت کے ساتھ انسانی پیدوار میں کافی اہمیت کا حامل و مردم خیز خطہ رہا ہے یہاں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل جیسے عظیم سیاسی مدبر سیاسی قائد اکبر خان بگٹی جیسے سر نا جھکانے والے۔

نڈر رہنما گل خان نصیر محمد حسن عنقا جیسے بڑے انقلابی شاعر شہید مولا بخش دشتی شہید ڈاکٹر یاسین بلوچ شہید حبیب جالب شہید ڈاکٹر شفیع جان خدمتگار پیدا ہوئے۔اسی طرح یہ خطہ اپنی روشن فکری اور وطن دوستی اور عوام دوستی کے جزبہ سے سرشار نوجوانوں کا بھی خطہ ہے۔20 اگست 2020 کے مغرب کے وقت میر حاصل خان کی جدائی کا خبر سن کر دل خون کی آنسو رو رہا تھا یہ دردناک خبر ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ میر جمہوریت اب ہم میں نہیں رہے۔ طرح طرح کی لمحات میر صاحب کے ساتھ گزرا ہوا خوشگور لمحہ ٹپکتے آنسوؤں کے ساتھ یاد آرہے تھے۔

2014 کو نیشنل پارٹی کے قومی کونسل سیشن میں جناب ڈاکٹر عبدالحء بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو نیشنل پارٹی کے صدارتی عہدے کے لیے مدمقابل تھے سارے کارکن بے چینی سے انتخابات کے نتائج سننے کے لیے بے تاب تھے راقم اپنے بی ایس او کے مرکزی کابینہ کے ساتھ وہاں موجود تھا پنجاب کی طرف سے آنے والے ایک معزز مرکزی کونسلر نے بی ایس او پجار کا نام بدلنے کی تجویز پیش کی تھی بی ایس او کے سارے دوست سمیت سابقہ چیئرمین اور مختلف عہدوں پر رہنے والے پارٹی کی لیڈرشپ اس تجویز سے ناخوش اور غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔

اسی دوران میر حاصل خان بزنجو مرحوم اسٹیج پر تشریف لاچکے تھے میر صاحب نے معزز کونسلر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم یہاں سب موجود بی ایس او کے پیدوار ہیں اور ہمیں فخر ہے ہم بی ایس او جیسے مادر آرگنائزیشن کے ممبر رہے ہیں انہوں نے مخاطب ہوتے کہا بی ایس او کے ساتھ ہمارا نظریاتی اتحاد ہے بی ایس او اور نیشنل پارٹی کے آئین سلوگن الگ الگ ہیں لہذا بی ایس او کی تاریخ کو نا چھیڑا جائے میر صاحب کے ان باتوں سے پنڈال میں موجود سارے نظریاتی کارکنوں کا غم غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔بلآخر ووٹنگ کا رزلٹ کا اعلان ہوا حاصل خان بزنجو باری اکثریت سے نیشنل پارٹی کے صدر اور شہید ڈاکٹر یاسین بلوچ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر عبدالحء بلوچ نے اپنی شکست تسلیم کرکے کارکنوں سے مخاطب ہوکر میر حاصل خان بزنجو کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ میر صاحب کے خلاف تنقیدوں کی انبار لگا دی اور یہ بھی کہا میر حاصل بزنجو بی ایس او کا رکن نہیں رہا ہے میر حاصل بزنجو ان سب باتوں کو سن کر مسکرا رہا تھا ڈاکٹر صاحب کے کہی ہوئی ہر بات پر مسکراتا رہا مجھ جیسے جونئیر سیاسی کارکن حیران اور پریشانی کے عالم میں مبتلا تھے میر صاحب بجائے غصہ بلکہ مسکرا کر سن رہا تھا۔ڈاکٹر عبدالحء بلوچ کے لمبی اور جذباتی تقریر کے بعد میر صاحب کو افتتاحی تقریر کے لیے بلایا گیا سب سے پہلے انہوں نے سارے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا۔

اور بعد میں صرف ڈاکٹر صاحب کے ایک تنقید کا سخت لہجے میں ان سے مخاطب ہوکر کہا”ڈاکٹر صاحب جب آپ پہلی بار بی ایس او کے چیئرمین منتخب ہوئے اور میرے بڑے بھائی بیزن بزنجو سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے آپ لوگ پہلے دورے کے لیے نال تشریف لائے تھے سب سے پہلا طالب علم میں تھا جس نے بی ایس او کا ممبر شپ فام بھرا تھا مرحوم بزں جو کی اس بات پر پنڈال میں موجود میر بیزن بزنجو نے ہاں میں سر ہلا کر مرحوم کی بات کی تائید کی“2018 کے الیکشن بلوچستان بلخصوص آواران میں انتہائی خطرناک تھا۔

کئی بار خیر جان بلوچ پر فائرنگ اور راکٹ لانچروں سے حملے ہوئے نیشنل پارٹی آواران نے 21 جولائی کو آواران اور 22 جولائی کو جھاؤ میں انتخابی جلسے کا اعلان کیا۔آواران سے نیشنل پارٹی کے امیدوار واجہ خیر جان بلوچ پنجگور میں اپنا انتخابی جلسہ مکمل کرنے کے بعد کراچی تشریف لائے 20 جولائی کے شام کراچی سے میر حاصل خان بزنجو کے ساتھ ہمارا قافلہ آواران کی طرف نکل پڑا میر صاحب اپنے ایک زاتی باڈی گارڈ اور ایک ڈرائیور کے ہمراہ اپنے چھوٹے سے گاڑی میں قافلے کے آگے آگے تھے۔

دوستوں کی بار بار اسرار کے باوجود میر صاحب قافلے سے آگے تھے سنگلاخ پہاڑوں کے پیج خطروں کے باوجود وہ بے باک بے فکر چلتا جارہا تھا چونکہ آواران کے ضلعی انتظامیہ اس وقت ایک خاص طبقے کے سیکورٹی حسار تھا۔ہم بلآخر طویل سفر ڈر خوف کے ساتھ جھاؤ پہنچ گئے اگلے دن ہم نے آواران میں جلسہ کے لیے جانا تھا۔چونکہ راقم کو جلسے کے سارے زمہ داری سمیت اسٹیج سیکرٹری کا فرائض سونپی گئی تھی 21 جولائی کو آواران میں ہونے والے جلسے میں لوگوں نے کافی تعداد میں شرکت کی میر صاحب اور خیر جان بلوچ کے اسپیچ کے بعد جلسہ اختتام پزیر ہوا۔

اگلے دن 22 جولائی کو جھاؤ میں جلسہ تھا ہم آواران سے جھاؤ پہنچ گئے ملنگ درویش صفت انسان حاصل خان بزنجو، خیرجان بلوچ اور آواران کے عوام جھاؤ تشریف لائے۔میر صاحب کی جلسہ گاہ پہنچتے ہی ہزاروں لوگوں نے کھڑے ہوکر استقبال کرنے ساتھ نعروں کی نا ختم ہونے والی سلسلہ شروع ہوا اسٹیج پر تشریف لاتے ہوئے میر جمہوریت راقم کی طرف ہاتھ ملانے بڑھے میرے کان میں آہستگی سے بولا یار آج شاعری زیادہ نہیں پڑھنا ہم اب بوڑھے ہیں اتنا بیٹھ نہیں سکتے روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سیٹ پر بیٹھ گئے اسی دن میر جمہوریت حاصل خان کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے نیشنل پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

اور آزاد امیدوار مولا بخش زاکر نیشنل پارٹی کے امیدوار واجہ خیر جان بلوچ کے حق میں دستبردار ہوا۔دوسرے حریفوں کی جانب سے یہ افواہ پھیلائی گئی تھی حاصل خان بزنجو ششک لینے کے لیے جھاؤ آیا ہوا ہے ایک قبائلی سردار نے میر صاحب کو جب یہ بات پہنچائی میر صاحب ہنسنے لگے۔”اگر قارئین میں سے کسی کو معلوم نا ہو میر حاصل خان بزنجو کے والد محترم میر غوث بخش بزنجو جھاؤ میں پیدا ہوئے تھیان کی بنیادی تعلق جھاؤ سے تھا اس لیے میر صاحب کے سینکڑوں ایکڑ زمین جھاؤ اور آواران میں ہیں“میر صاحب نے جھاؤ کے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا لوگ یہ افواہ پھیلا رہے۔

میں یہاں ششک لینے آیا ہوں ارے یہ ششک میرے ایک دن کی سگریٹ نہیں ہوتا میں کیوں آپ سے ششک لوں آج سے میرے قبیلے کا ایک فرد بھی آپ سے ششک لینے کی بات تک نہیں کرے گا۔یوں میر مرحوم 25 جولائی کے الیکشن کے دن بھی آواران میں موجود رہا اور شام کے وقت اپنے تینوں ساتھیوں کے ہمراہ جھاؤ سے کراچی کی طرف روانہ ہوا۔میر صاحب کے ساتھ میری یہ سفر انتہائی تاریخی اور خوشگوار گزرا یہ سفر راقم سمیت ہر ورکر کے لیے مشعل راہ اور سبق آموز ہے۔میر جمہوریت اپنی سیاست اور نظریات پر پختہ یقین کے ساتھ کاربند رہنے والی سیاسی رہنما تھے کٹھن سے کٹھن حالات بھی ان کے قدموں میں لغزش پیدا نا کرسکے۔

میں اس بات کو تحریر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں میر جمہوریت ہمارے وہ رہنما تھے جس پر آشوب حالات کا زرہ برابر اثر نہ ہوا،وہ آخری دم تک جمہوریت اور نیشنل پارٹی کے سیاست سے منسلک رہے حالانکہ اس کے اردگرد کے حالات اس کے حق میں نہیں تھے ہر طرف بندوق انقلاب کے نام پر طاقت و جبر کا دورہ دورہ تھا مگر جمہوری سیاست سے مسلح ہوکر منطق دلیل کو زندہ رکھ کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے وہ مخالف کی شان و شوکت عوامی و عسکری طاقت کے سامنے کبھی بھی مرعوب نہیں ہوئے نا وہ کسی دھونس دھمکی میں آکر سیاست و پارٹی سے دست کش ہوئے۔

نہ جذباتی نعروں ہنگاموں سے گبھرائے بلکہ مستقل مزاجی،تحمل برداشت کے زریعے اپنی جمہوری طاقت کو بڑھانے میں مصروف عمل رہے۔آج حالات اس بات کی دلیل ہیں کی میر جمہوریت نے مرتے دم تک جو آخری الفاظ تجزیے اور پیشن گوئیاں کی تھیں وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہے۔یقینا میر حاصل خان بزنجو کا سیاست کا دور جہاں ایک طرف گھٹن، شکست وریخت، مایوسی، ناامیدی، بے حسی، انفرادیت، بیگانگی، اور زاتی گروہی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کا زمانہ ہے دوسری طرف اظہارِ رائے شعور اگاہی پر پابندی ہے۔

انہوں نے قومی جدوجہد میں براہ راست شرکت کی وہ اس مقصد کے لیے کبھی جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں رہے۔لیکن یہ شخص مرتے دم تک اپنے اصولوں اور نظریات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوا آج صرف بلوچ نہیں تمام محکوم مظلوم طبقہ ایک توانا سے محروم ہوا ہے۔

ستم کو ستم،ظلم کو ظلم کہوں گاچپ نا رہونگا
یہ جان جائے تو جائے سچ کہوں گا چپ نا رہونگا