پاکستان کے مسلح افواج کے زیرانتظام تحقیقی ادارہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) 1991میں اسلام آباد میں قائم ہوا۔ ضرورت کے تحت ابتدا میں اسے کمشنڈ افسران کے لیے پاک فوج کے انجینیئرنگ کالج اور اسکولوں کو ضم کرکے بنایا گیا۔ بعدازاں اسلام آباد میں اس کا مرکزی کیمپس قائم کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اسے تحقیقی ادارے میں تبدیل کیا گیا۔ آج نسٹ سول اور ملٹری اشتراک کار کا مکمل شاہکار ہے۔ اس کے 19انسٹی ٹیوٹ ہیں جن میں پانچ ملٹری کالج بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، رسالپور، کراچی اور کوئٹہ میں اس کے پانچ کیمپس ہیں اور اس اعتبار سے حقیقی معنوں میں ایک قومی ادارہ ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔
نسٹ نے امریکی یونیورسٹی کا ماڈل اختیار کیا اور اطلاقی سائنس اور انجینیئرنگ کے لیے انہی لیبارٹری ہدایات پر زور دیا۔ یہاں انڈر گریجویٹ، گریجوٹ ڈگریوں کے ساتھ ڈاکٹریٹ اور پروفیشنل ڈگری بھی دی جاتی ہیں۔ اسلام آباد کے علاقے H-12 میں پُرفضا مقام پر اس کا مرکزی کیمپس قائم ہے۔ یہاں تحقیق، تخلیقیت اور انٹرپرینیورشپ کے لیے اعلیٰ ترین سہولیات دستیاب ہیں۔ نسٹ میں داخلے کا کڑا معیار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے داخلے کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں میں سے 4فی صد امیدوار ہی کام یاب ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی میں پورے ملک سے طلبا آتے ہیں جن میں سے 60فی صد کم اور متوسط آمدن رکھنے والے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ نسٹ میں بہ آسانی برادشت کیے جانے والے تعلیمی اخراجات رکھے گئے ہیں اور اس کے علاوہ مالی استعداد نہ رکھنے والوں کے لیے وظائف کا نظام بھی موجود ہے۔ مالی استعداد کی وجہ سے کئی نوجوان اعلیٰ تعلیموں اداروں تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔ نسٹ میں تمام صوبوں کے یکساں مواقع فراہم کرکے اس خلا کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں طالبات کی تعداد قابلِ ذکر ہے۔ آج بھی انجینیئرنگ میں مردوں کی تعداد غالب ہے۔
اور مغربی دنیا میں بھی خواتین اس شعبے میں کم ہی آتی ہیں۔ انجینیئرنگ کے شعبے کے لیے سخت جانی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ مرد حضرات جسمانی قوت زیادہ رکھتے ہیں اور انجینیئرنگ کے عملی مشقیں بہ آسانی کرسکتے ہیں جب کہ لڑکیوں کے لیے یہ ممکن نہیں۔ لیکن سائنس صنفی امتیاز نہیں کرتی۔ ان امتیازات کے باعث کئی سماجی مسائل پیدا ہوئے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ صلاحیتوں کے مطابق ہر کسی کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ کراچی کے قلب میں واقع نسٹ کے پاکستان نیوی انجینیئرنگ کالج(پی این ای سی) میں لڑکیوں کی غیر معمولی تعداد انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔
نسٹ نے قوم کی ذہین بچیوں کو اس شعبے میں مواقع فراہم کرکے پاکستان کے سماجی و سیاسی تقاضوں کو پورا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ نسٹ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ یہ اس ادارے کا امتیاز ہے جسے حاصل کرنے میں اسے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک بڑی کام یابی ہے اور اس کا مستقبل بھی روشن ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران نسٹ میں تعلیمی و تحقیقی معیار مسلسل بلند ہورہا ہے اور یہ ادارے کے انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ پروگرامز سے ظاہر ہے۔
یونیورسٹی میں 19 انجینیئرنگ پروگرام واشنگٹن اکارڈ کے تحت جاری ہیں۔ نسٹ کے تحت مزید چار وقیع ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلیجینس(این سی اے آئی)، نیشنل سینٹر آف پروبائیوٹکس اینڈ آٹومویشن(این سی آر اے) پاکستان کو اکیسویں صدی میں آگے لے کربڑھیں گے۔ نسٹ میں تعلیم و تحقیق پاکستان میں صنعتوں کی ضروریات سے مربوط ہے۔ نسٹ کے بنائے گئے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس (آئی پی آرز) 711پیٹنٹ ہیں ان میں سے 123گزشتہ دو برسوں میں دیئے گئے۔ نسٹ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے۔
جس نے انڈسٹری کو ٹیکنالوجی منتقل کی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں 13 ٹیکنالوجیز نسٹ سے صنعتوں کو منتقل ہوئیں۔ 36آئی پی آرز کے ساتھ ان ٹیکنالوجیز نے صحت، ٹیلی کمیونیکیشن اور پیدوار وغیرہ کے شعبے اور درآمد کم ہونے سے متعلق مثبت اثرات مرتب کیے۔ علم کی بنیاد پر معاشی ترقی کے لیے تحقیق و صنعت کے مابین یہ رشتہ ناگزیر ہے۔ نسٹ کو دیگر شعبوں کے علاوہ ملک میں پہلے سائنس و ٹیکنالوجی پارک کے قیام میں بھی اولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دسمبر 2019میں نسٹ اسلام آباد میں نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح کیا۔
قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی متاثر کُن تعداد اس شاندار منصوبے کا حصہ بن چکی ہے۔ نسٹ کو کئی اہم اداروں کا بنیاد گزار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ 2005میں پاکستان کا پہلا ٹیکنالوجی انکیوبیشن سینٹر، حقوق دانش کا ادارہ، صنعتوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی، نسٹ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(NIPS) کی صورت میں یونیورسٹی سطح کاپہلا تھنک ٹینک، کارڈک اسٹینٹ سمیت دیگر طبی آلات کی تیاری سمیت کئی اعزازات اسے حاصل ہے۔ یہ یونیورسٹی ملک میں واقعی اعلیٰ تعلیم کا مرکز ہے۔ کورونا وائرس وبا کے دوران نسٹ کے عطاالرحمان اسکول آف اپلائیڈ بائیوسائنسز نے اس وائرس کا انتہائی کار گر ٹیسٹ بھی بنایا۔
این کوکٹ کے نام سے یہ ٹیسٹ اس وبا کی کم وقت تشخیص میں آئندہ بھی کام آتا رہے گا۔ نسٹ کے کالج آف الیکٹریکل اینڈ میکینکل انجینیئرنگ (سی ای ایم ای) نے این رور کے نام سے خودکار گاڑی بنائی اور ایر این کے نام سے ایرئیل سسٹم بھی بنایا۔ وبا کے دوران قرنطینہ کیمپوں، اسپتال کے خصوصی وارڈز، ایئرپورٹ، رہائشی علاقوں اور عوامی مقامات پر انھیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔نیشنل سینٹر آف روبوٹک اینڈ آٹومیشن(این سی آر اے) کی روبوٹ ڈیزائن اینڈ ڈیولپمنٹ لیب (آر ڈی ڈی) نے دوزبانوں (اردو اور انگریزی) میں کام کرنے والی اسکریننگ ایپ بنائی جو اینڈرائڈ کے لیے اردو کی پہلی ایپلی کیشن ہے۔
COVIDCHECK PAKISTAN کے نام سے بنائی گئی اس ایپ کو امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی اعرب سمیت نو ممالک میں استعمال کیا گیا اور 23مارچ 2020کو اس کے اجرا کے دو دن میں اس سے 8200اسکریننگز کی گئیں۔ نسٹ کے بائیومیڈیکل انجینیئرنگ نے این سیف کے نام سے انتہائی اعلیٰ معیار کا سینیٹائزر بنایا جو عالمی ادارہ صحت اور اور سینٹر فور ڈیزیز کنٹرو (سی ڈی سی) امریکاکے معیار کے مطابق ہے۔ نسٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی اور تحقیقی فضا قائم کرنے کے لیے اندرون و بیرون ملک کے مختلف ذرائع بروئے کار لائے گئے ہیں۔
اس مقصد کے لیے بین الاقوامی جامعات، تحقیقی اداروں، باصلاحیت ماہرین اور اسکالرز اور نمایاں کمرشل اداروں سے اشتراک کار کیا گیا ہے۔ ان میں چین، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا، ترکی اور دیگر دنیا کے 35ممالک کی 165جامعات اور ادارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین، جرمنی، فرانس اور دیگر ممالک میں طلبا کے تبادلے کے پروگرام بھی جاری ہیں۔ ان بین الاقوامی رابطوں کی وجہ سے نسٹ کے طلبا کو بین الاقوامی میدان میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
اپنے نمایاں تدریسی و تحقیقی کارکردگی کی وجہ سے نسٹ نہ صرف ملک کی بہترین جامعہ کا اعزاز اپنے نام کیا ہوا ہے بلکہ 2020کی جاری کردہ عالمی درجہ بندی کے مطابق انجینیئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی 300بہترین یونیورسٹیوں میں شامل واحد پاکستانی یونیورسٹی ہے۔
4سندھ یونٹ کے واسطے سے نسٹ کے ساتھ میرا ایک ذاتی تعلق ہے۔ نسٹ کا ریکٹر ہونے سے قبل لیٖفٹیننٹ جنرل(ر) نوید زمان (ہلال امتیاز ملٹری) کور کمانڈر لاہور تھے۔ وہ بریگیڈیئر معین شہید کے برادر نسبتی ہیں جنھیں 2010میں نسٹ کے نزدیک گولڑہ میں دہشت گردوں نے قتل کردیا تھا۔ بریگیڈیئر(ر) مجاہد عالم کی طرح، جو اس وقت لارنس کالج گھوڑا گلی کے پرنسپل ہیں، انہوں نے اس ادارے کے نمایاں مقام کو بحال کیا ہے، مرحوم معین چیف آف آرمی اسٹاف بننے کی قابلیت رکھتے تھے۔ وہ سندھ 4کو نئی بلندیوں پر لے کر گئے۔ میرا فخر یہ ہے کہ نوید ایک قابلِ فخر فوجی تھے اور اب اپنے دوسرے کریئر میں نسٹ کو عظیم الشان ادارہ بنا رہے ہیں جسے چوتھے صنعتی انقلاب سے ہم آہنگ کے تقاضوں کے مطابق بلند سے بلند تر لے جارہے ہیں۔
وہ پاک فوج کے افسران کے لیے بھی باعث فخر ہیں۔ پاکستان صرف معیاری تعلیم ہی کے ذریعے ترقی کرسکتا ہے اور نسٹ اس میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کی دیگر جامعات کے لیے ماڈل بن سکتا ہے۔ نوید اور ان کے ساتھیوں نے نسٹ کو اس مقام پر لے جانے کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں ان کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ شعبہ تعلیم کے ان قابل قدر ماہرین کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف ہونا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)