بی ایم سی بحالی تحریک کے زیراہتمام تادم مرگ بھوک ہڑتال چوتھے روزمیں داخل ہوچکا ہے۔ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ملازمین وطلباء کی حالت بگڑ نے لگی ہے، جنہیں بار بار طبی امداد کیلئے ہسپتال لے جایاجارہاہے۔ بی ایم سی بحالی کے رہنماؤں کاکہناہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ بھوک ہڑتالی ساتھیوں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔انہوں نے حکومتی رویے کی مذمت کرتے ہوئے اس شکوہ کا اظہار کیا کہ مذاکراتی وزراء، اعلیٰ آفیسران، گورنر بلوچستان اور انکے نمائندگان جنہوں نے بار بار مذاکرات میں معاملات طے کیے مگر ایک بھی شق پر عملدرآمد نہیں کرایاجاسکا۔
بلکہ ہر مذاکرات کے بعد بجائے مسائل حل ہونے کے انتقامی کاروائیوں میں تیزی لاہی جاتی رہی اور قائدین مذاکراتی کمیٹیوں کے گھروں اور دفتروں کے چکر لگاکر انہیں ان کے وعدے وعید یاد دلاتے رہے۔انہوں نے کہاکہ حکمرانوں اور گورنر بلوچستان کے اس طرح کے غیر سنجیدہ رویے نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا کہ اپنے لیے کفن تیار کر یں۔ اگر حکومت سنجیدگی دکھانا چاہتی ہے تو فوری طور پر ہمارے مطالبات کو تسلیم کرکے ان پر عملدرآمدکرے۔بھوک ہڑتال پر بیٹھے بی ایم سی کے نمائندگان نے سخت گیر مؤقف اپناتے ہوئے کہاکہ صوبے کے طالب علموں پر حکومت نے تعلیمی دروازے بند کرنے کی گورنر بلوچستان کی پالیسوں پر عمل پیرا ہے۔
صوبائی حکومت گورنر کے سامنے نہ صرف بے بس ہے بلکہ گورنر ہی کے اشاروں پرچل رہی ہے حکومت کو مستعفی ہوجانا چاہیے تاکہ صوبے میں نافذگورنر راج سے پردہ اٹھ جائے۔انہوں نے کہاکہ ہم ایک بار پھر واضح کردیناچاہتے ہیں کہ بولان میڈیکل کالج بحال کیے بغیر احتجاج ختم نہیں ہوگا بھوک ہڑتال پر بیٹھے ساتھیوں نے طبی امداد لینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ روز بی ایم سی بحالی تحریک کے نمائندگان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت ترامیم کے ذریعے ابہام کو دور کرے گی اور اس مسئلہ کو ہر صورت حل کرے گی۔
بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ہر صورت مسائل کو حل کرنے کا کہا ہے اس سے یقینا ایک مثبت پیغام جائے گا کہ موجودہ حکومت اپنے عوام اور اسٹوڈنٹس کے مفادات کا تحفظ ہر صورت کرے گی مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جلد ہی اس عمل کو یقینی بنایاجائے تاکہ ملازمین اور اسٹوڈنٹس میں موجود بے چینی دور ہوسکے چونکہ ان کا مطالبہ اول روز سے ایک ہی ہے جو بارہا حکومتی وفد کے سامنے رکھا گیا ہے لہٰذابی ایم سی کے طلباء وطالبات سمیت ملازمین کے خدشات وتحفظات کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس سے قبل جتنے بھی مذاکرات ہوئے اور معاہدے کئے گئے۔
ان سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوسکا اورسراپااحتجاج بی ایم سی بحالی تحریک کے نمائندگان کسی طور پر مطمئن دکھائی نہیں دیئے جس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی نمائندوں کے باربار کے مذاکرات کے بعد مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے انہیں حل کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی ان پرعمل نہیں کرنا ہے۔بلوچستان پہلے سے ہی تعلیمی شعبے میں دیگر صوبوں کی نسبت پیچھے ہے جس کی وجہ تعلیمی اداروں کا فقدان اور ان میں سہولیات کا نہ ہونا ہے جبکہ بڑی تعداد میں نوجوان اسٹوڈنٹس دور دراز علاقوں سے آکر کوئٹہ میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے علاقوں میں بڑے تعلیمی ادارے نہیں۔
البتہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے دور میں تربت یونیورسٹی کو مکمل کیا گیا اور آج ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد اس سے استفادہ کررہی ہے اور اس کے علاوہ بھی ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے دور میں دیگر تعلیمی منصوبے تشکیل دیئے گئے جس کونوجوانوں میں زبردست پذیرائی ملی۔اسی طرح صحت کے شعبے میں کسی حد تک بہتری لائی گئی اور اداروں کیلئے رقوم رکھے گئے تاکہ عوام کو ہر قسم کی سہولیات میسر آسکیں، اب اداروں کے اندر موجود مینجمنٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اداروں کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کے درجہ پر ہی رکھے مگر جس ایکٹ پر اسٹوڈنٹس وملازمین کے خدشات وتحفظات ہیں انہیں دور کرے، ادارے کے ملازمین اور اسٹوڈنٹس خود اس بات پر خوشی کااظہار کرتے آئے ہیں کہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد صوبے کے اسٹوڈنٹس کو بہتر سے بہتر تعلیمی سہولیات ملیں گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میڈیکل کی تعلیم وہ اپنے ہی صوبہ میں حاصل کرسکیں گے۔
مگر جب یونیورسٹی کا درجہ دینے کے بعد اس میں جس طرح کی ترامیم کی گئی ہیں اس کے بعد اسٹوڈنٹس اور ملازمین سڑکوں پر نکل آئے وگرنہ انہیں کوئی شوق نہیں کہ سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کریں بجائے اس کے کہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔ لہٰذا جو جائز مطالبات اس وقت ملازمین اور اسٹوڈنٹس کے ہیں انہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کیاجائے تاکہ وہ موجودہ حالات میں جس ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں اس سے نکل سکیں۔