موٹروے زیادتی کیس کے شریک ملزم شفقت کو 6 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔موٹروے زیادتی کیس کے شریک ملزم شفقت کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزم کے خلاف زیادتی کے مقدمے میں دہشت گردی کی بھی دفعات شامل کی گئیں، مقدمہ خاتون کے عزیز سردار شہزاد کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ملزم شفقت کو گزشتہ روز دیپالپور کے نواحی گاؤں سے گرفتار کیا گیا تھا اور سی آئی اے کی ٹیم گرفتار کرنے کے بعد اسے لاہور لے کر پہنچی تھی۔ ملزم شفقت نے پولیس حراست میں اعتراف جرم کیا جبکہ ملزم کا ڈی این اے بھی متاثرہ خاتون کی رپورٹ سے میچ کر گیا تھا۔
ملزم شفقت کا کہنا تھا کہ عابد اسے اکثر وارداتوں کے لیے بلا لیتا تھا اور اس رات بھی واردات کے وقت عابد نے شراب پی رکھی تھی۔ اس دوران تیسرا ساتھی بالا مستری بھی ساتھ تھا تاہم واردات سے پہلے وہ واپس چلا گیا تھا۔ملزم کا کہنا تھا کہ بالا مستری کے چلے جانے کے بعد وہ اور عابد علی رکشہ کرائے پر لے کر کرول گاؤں کی موٹروے سے لنک سڑک پر پہنچے تھے۔شفقت علی کے مطابق جب انہوں نے موٹروے پر گاڑی دیکھی تو واردات کی نیت سے وہاں پہنچے تاہم گاڑی کے اندر موجود خاتون نے باہر آنے سے انکار کیا تو عابد نے گاڑی کا شیشہ توڑ دیا۔
ملزم کے مطابق گاڑی کا شیشہ توڑنے کے بعد بھی خاتون گاڑی سے باہر نہیں آ رہی تھیں جس پر انہوں نے بچوں کو اتار لیا اور موٹروے سے نیچے کھائی کی طرف لے گئے جس کے بعد مجبوراً خاتون بھی پیچھے آ گئی۔ملزم شفقت علی کے مطابق انہوں نے بچوں کو مارنے کی دھمکی دے کر خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد نقدی اور زیورات لے کر فرار ہو گئے۔دوسری جانب ملزم شفقت کے بیان کے بعد ان کے تیسرے ساتھی اقبال عرف بالا مستری کو بھائی سمیت چیچہ وطنی سے گرفتار کر لیا گیاہے۔دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے موٹروے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او کے ایسے بیانات پر کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی۔لاہور ہائی کورٹ میں موٹروے واقعہ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کے طلب کرنے پر سی سی پی او لاہور ہائیکورٹ پہنچے۔عدالت میں موٹروے زیادتی کیس پر جاری نوٹیفکیشن پیش کیا گیا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت بنایا گیا ہے یہ کمیٹی کمیٹی نہیں کھیلا جا سکتا۔لاہور ہائی کورٹ میں سی سی پی او کو جاری کردہ شوکاز نوٹس پیش کر دیا۔سی سی پی او لاہور نے مؤقف اختیار کیا کہ 3 بجکر 5 منٹ پر رپورٹ ہوئی تھی اور ہم 3 بجکر 25 منٹ پر پہنچ گئے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاتون نے پہلی کال کس کو کی تھی جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ خاتون نے پہلی کال 130 پر کی تھی۔عدالت نے استفسار کیا کہ خاتون کو کیا کہا گیا تھا تو سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ خاتون کو کہا گیا آپ 15 پر کال کریں۔ موٹروے حوالے کرنے کے بعد فورس تعینات نہیں کی گئی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ موٹروے کب حوالے کی گئی تھی جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ موٹروے دو ماہ قبل حوالے کی گئی تھی۔سی سی پی او لاہور نے مؤقف اختیار کیا کہ 2018 میں بریفنگ کے وقت فورس تعیناتی سے متعلق کہا گیا تھا تاہم اب تک فورس تعینات نہیں کی جا سکی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں تمام آئی جیز کو اس کیس میں بلوا رہا ہوں۔سی سی پی او نے بتایا کہ رنگ روڈ ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے لیکن اداروں کی آپس میں لڑائی کے باعث مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔بہرحال موٹروے زیادتی کیس میں پارلیمنٹ اجلاس کے دوران بھی ہنگامی آرائی دیکھنے کو ملی مگر اس معاملہ کی حساسیت کو بھانپتے ہوئے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ غیر معمولی واقعہ ہے،اس واقعہ سے ہمارے معاشرے کی سبکی ہورہی ہے اس کیس کو سنجیدگی سے حکومت اوراپوزیشن کو لینا چاہئے اورقانونی بلز جتنے بھی ہیں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
کیونکہ ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت آتے ہیں جس طرح قانون سازی ہوگی اسی طرح عمل ہوگا اور سزا کا تعین کیاجائے گا تو یقینا لوگ خود کو محفوظ سمجھیں گے۔سوال اسی بنیاد پر اٹھائے جارہے ہیں کہ ہمارے یہاں خاص کرخواتین اور بچیاں غیر محفوظ ہیں کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی زیادتی کے کیسز سامنے آئے ہیں جب تک خواتین اور بچیوں کو قانون سازی اوران پر عملدرآمدسے تحفظ نہیں دیاجائے گا تو یقینا سوالات اٹھیں گے اور خواتین سڑکوں پر نکلیں گی۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں سمیت اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ساتھ ہی معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہذب معاشرے کی تشکیل کیلئے شعوری وآگاہی کے حوالے سے کام کریں۔