کراچی: پاکستان فشر فوک فورم اور سول سوسائٹی نے سمندری جڑواں جزائر پر ممکنہ شہروں کی تعمیرات کو عوام دشمن منصوبہ قرار دیتے ہوئے ڈنگی اور بھنڈاڑ پر تعمیرات روکنے کا مطالبہ کر دیا ہے، انہوں نے شہروں کی تعمیرات کے منصوبے کو عوام دشمن قرار دیدیا ہے۔ چیئرمین پاکستان فشرفوک فورم محمد علی شاہ اور پائلرکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے حبیب الدین جنیدی، فرحت پروین، اسد اقبال بٹ کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈنگی اور بھنڈاڑ جڑواں جزائر وں پر ممکنہ شہروں کی تعمیرات کے حوالے سے آگاہ کرنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں طاقتور قوتیں اور ” حکمران ” ہمیشہ ایسے نام نہاد اور عوام دشمن منصوبوں کے پیچھے ہوتے ہیں جو لاکھوں غریب لوگوں کی قیمت پر فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے سندھ کے سمندر میں 300 سے زیادہ چھوٹے بڑے جزائر موجود ہیں یہ جزائر ماضی میں سمندر کا حصہ نہیں تھے بلکہ ڈیلٹا کا حصہ رہے اور ہیں۔
ان جزائروں کو سندھو نے لہروں کے ساتھ لانے والی مٹی سے تخلیق کیا ہے۔محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہہ ڈیلٹا کی ضرورت کے مطابق پانی دینے کے بجائے انڈس ڈیلٹا میں موجود جزائروں کو ترقی کے نام پر بیچ کر ان پر جدید شہر بنانے کے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں، یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے چل رہا ہے جس کی شروعات سن2000 میں پرویز مشرف نے ایک لسانی تنظیم کے ساتھ مل کر سندھ کی ساحلی پٹی میں صدیوں سے اپنا وجود رکھنے والی کورنگی اور پھٹی کریک کے کنارے قائم ڈنگی اور بھنڈاڑ دو جڑواں جزائروں پر تھائی حکومت کے ذریعے ٹیکنیکل سٹی کے نام سے ایک جدید شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔
جو کئی وجوہات کے باعث تاخیر کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ہی دور میں دوبارہ 2006 میں دبئی کی کمپنی عمار کو ان جزائروں کی 12000 ایکڑ زمیں بیچ دی گئی، جس پر عمار کمپنی نے ڈائمنڈ بار آئی لینڈ سٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ تیا رکیا تھا، ماہی گیر تنظیموں اور سندھ کی عوام کی مزاحمت کی وجہ سے عمار کمپنی نے اس منصوبے سے ہاتھ اٹھالیا تھا۔2013 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورمیں ملک ریاض کے سیف سٹی کے نام کے منصوبے بنانے کی اجازت دی گئی، جس کو سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔
محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اب دوبارہ عمران خان کی وفاقی حکومت نے ترقی کے جادوگران سے مل کر سندھ کے ساحلی جزائر ڈنگی اور بھنڈاڑ پر جدید شہر کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ابھی تک یہ واضع نہیں ہوا ہے کہ جزائروں پر جدید شہر تعمیر کرنے کے لیے کون سی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ دنوں صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی کی زیرصدارت میں ملک ریاض سمیت ملک کے بڑے بڑے بلڈرز کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے۔
ستم ظریفی تو دیکھیں وفاقی حکومت ماضی کی طرح اس بار بھی سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر سمندری جزائر وں پر ایک نئے شہرکو تعمیر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ طریقہ کار ناصرف ملکی آئین، قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ اقوام متحدہ کے مختلف کنوینشن اور معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے،جو لوگوں کی تاریخی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ عمران خان کے اس غیر آئینی عمل سے واضع ہوچکا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی قطعی نہیں ہے۔
اور حکمرانوں کی طرف سے آئین کی باربار خلاف ورزیاں، روز کا معمول بن گیا ہے۔دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ آئینی اور غیر قانونی طور پر سندھ کے سمندری جزائر سندھ کی ملکیت ہیں اور ان پر ماہی گیروں کے تاریخی حقوق ہیں۔ جب کہ سندھ حکومت ان کی کسٹوڈین یا سنبھالنے والی ہے اس کے علاوہ ڈنگی اور بھنڈاڑ جزائر سمیت کتنے ہی جزائر ہزاوں ہیکٹرز پر پھیلے تمر کے جنگلات کی پناہ گاہیں بھی وجود رکھتی ہیں، یہ تمر کے جنگلات مچھلیوں اور جھینگوں کی نرسریاں ہیں۔ جب کہ جزائر کے آس پاس تمام چھوٹی بڑی کریکس کراچی اور ٹھٹہ کے ہزاروں ماہی گیروں کی مچھلیاں مارنے کی جگہ ہیں۔
اس کے علاوہ جزائروں کے دونوں اطراف سے کورنگی اورپھٹی کریکس بھی ہیں جو ماہی گیروں کے گہرے سمندر میں جانے کی گزرگاہیں ہیں۔ایک نیا شہر تعمیر ہونے سے ماہی گیروں کی مچھلیاں مارنے کی جگہ کے ساتھ ماہی گیروں کی گزرگاہیں بھی بند ہوجائیں گی۔ چیئرمین فشار فوک فورم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ دونوں جزائر ڈنگی اور بھنڈاڑ کافی نہیں ہیں۔
اس لیے ہاکس بے کی پوری ساحلی پٹی کی 60000 ایکڑ زمین پر واٹر فرنٹ شگرلینڈ سٹی کے نام سے جدید شہر تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ کراچی کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، کراچی کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال نے صحافیوں کو بتایا کہ ہاکس بے پر ” کراچی واٹر فرنٹ شگرلینڈ” کے نئے شہر کی تعمیرکے ماسٹر پلان کو آخری شکل دی گئی ہے اور یہ منصوبہ 68 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہہوفاقی حکومت نے ملک میں ایک نئی اتھارٹی، پاکستان آئی لینڈ ز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کے نام سے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی 1050 کلومیٹرکی ساحلی حدود میں جتنے بھی جزائر ہیں، انہیں ترقی کے نام پر قبضے میں لیا جائے گا، یہ اتھارٹی منسٹری آف میری ٹائم افیئرز کے تحت کام کرے گی۔ اتھارٹی کا مقصد ہوگا کہ جزائر کو ترقی دیں اور وہاں پر روڈ راستے اور پلیں بنائی جائیں گی۔
اور ان جزائروں پر ہائی رائز بلڈنگ بنا کر، انسانی آبادی کو آباد کرے گی۔ اتھارٹی بنانے کا بل تیار ہوچکا ہے، جو جلد ہی منظوری کیلئے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، مگر اصل میں وفاق کے پورے عمل کے پیچھے سندھ کے سمندری جزائر پر قبضہ کرنا مقصود ہے جس کی شروعات دو جڑواں ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں سے کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل میں پاکستان کے آئین کے مطابق سمندری پانی کے ساحل کے زیرو ناٹیکل مائل سے 12 ناٹیکل مائل صوبوں کی سمندری پانی کی حد ہے اس لیے تمام سمندری جزائر صوبوں کے پانی کی حد میں آتے ہیں، اس لیے صرف یہ علاقہ سندھ اور بلوچستان صوبوں کی ملکیت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر نئے شہر کی تعمیر کے اس فیصلے سے سمندری ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ اس شیطانی منصوبے کی وجہ سے مقامی ماہی گیر برادر ی کی زندگی اور معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔سول سوسائٹی ارکان کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ اگر کراچی کے ان جزیروں ڈنگی اور بھنڈاڑ پر جدید شہر تعمیر ہوا، تو غریب ماہی گیروں کا بنیادی اور روائتی روزگار کے وسائل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سمندری اور ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
ہزاروں فشنگ گراؤنڈس ختم ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں ماہی گیروں میں بے روزگاری کا تناسب بڑی تعداد میں بڑھ جائے گا۔ تمر کے جنگلات جو پہلے ہی بڑی تیزی سے تباہ کیے جارہے ہیں اور جزیروں پر شہر تعمیر کرنے سے اور بھی زیادہ تباہ ہوں گے۔ سندھ کے جزیروں پر جدید شہر تعمیر ہونے سے سندھ کی ساحلی پٹی کے لگ بھگ 8 لاکھ ماہی گیر اپنے روزگار سے بے دخل ہوکر غربت، بھوک اور بدحالی کا شکار ہوجائیں گے۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہہ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے جزیروں کی ملکیت کی تکرار سندھ صوبائی حکومت کے سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے بیچ میں پہلے دن ہی سے جاری ہے، تو دوسری طرف ماہی گیروں کی تنظیموں اور ماہی گیروں کی بڑے پیمانے پر چلنے والی مظبوط تحریک اور خود دبئی کی عمار اور لمٹ لیس کمپنی کی اپنی مالی بحران کی وجہ سے ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں پر جدید شہر ڈائمنڈ بار آئی لینڈ سٹی کی تعمیر اور ہاکس بے پر واٹر فرنٹ شوگر لینڈ سٹی کی تعمیر والے منصوبے تاخیر کا شکار ہوگئے۔ یاد رہے کہ پاکستان نیوی نیبھی ان جزیروں پر جدید شہر تعمیر کرنے پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا۔
کہ یہاں شہر تعمیر ہونے سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہہ اس قسم کے غیرآئینی اقدام اٹھانے سے گریزکیا جائے اور ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان پر کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔ حکومت سندھ کے صوبے کی زمینوں پر آئینی حق کو تسلیم کرکے کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی نہ کی جائے۔ سندھ کے ماہی گیروں کی قدیمی آبادیوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرکے ان کے روزگار کے وسائل کی حفاظت کی جائے۔