گزشتہ روز پاک افغان بارڈر بادینی کے مقام پر بادینی ٹریڈ ٹرمینل کی افتتاحی تقریب فرنٹیئرکوربلوچستان کی جانب سے منعقد ہوئی،تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد وسیم اشرف، آئی جی ایف سی میجر جنرل فیاض حسین شاہ،صوبائی وزراء سمیت قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔ افتتاحی تقریب کے موقع پروزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ٹریڈ ٹرمینل کے قیام سے عوام کو تجارت کے وسیع مواقع میسر ہوں گے اور ہر خا ص وعام آدمی کے روزگار اور رہن سہن میں بہتری آئے گی،انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت صوبے میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے جامع منصوبہ بندی کررہی ہے۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں بہت سے ایسے منصوبے شامل ہیں جن کی تکمیل سے روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا اور عوام ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ صوبے کے سرحدی علاقوں میں ٹریڈ ٹرمینل اور بارڈر مارکیٹوں کے قیام کے منصوبوں پر عملدرآمد سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، آج ہم ایک مقصد کے تحت یہاں موجود ہیں، ہمارا مقصد سرحدی علاقوں کے عوام کی خوشحالی ہے، جب اس قسم کے منصوبے دیگر سرحدی علاقوں میں شروع ہوں گے تو زندگی کی بنیادی سہولیات یہاں کے لوگوں کو مل سکیں گی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم کئی سالوں سے سی پیک کے مغربی روٹ کا سنتے آرہے تھے جسے عملی شکل موجودہ وفاقی حکومت نے دی ہے۔ ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تمام فریقین کی شمولیت اور باہمی اعتماد ضروری ہے، ہم نے اپنے اقدامات کے ذریعہ ترقیاتی عمل پر عوام کا اعتماد مستحکم بنانا ہے۔ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ ذرائع مواصلات کی کمی کا ہے جو ترقیاتی عمل میں رکاوٹ ہے، موجودہ صوبائی حکومت صوبے میں سڑکوں کی تعمیر، توسیع اور مرمت کے منصوبوں کی جانب بھرپور توجہ دے رہی ہے جس کے لئے خطیر فنڈز مختص کئے گئے ہیں، گزشتہ سال اڑھائی ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر ہوئیں جبکہ اس سال تین ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں۔
جن سے تجارت سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ہوگا۔بہرحال بادینی ٹریڈٹرمینل جس علاقے میں واقع ہے وہاں پر تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کیلئے سب سے پہلے انفراسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جاناچائیے چونکہ کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلہ پر واقع ہے اور سڑکوں کی صورتحال بھی ایسی نہیں کہ فوری طورپر تجارتی سرگرمیاں بحال ہوسکیں کیونکہ تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے،اس روٹ پر سڑکوں کا جال بچھانا، مواصلاتی نظام،اسپتال سمیت دیگرتمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ تجارت کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرناپڑے گوکہ یہ سرحدی علاقہ قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اوراس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے۔
مگر ان ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اگر جنگی بنیادوں پر اس پر کام کیاجائے تو ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، اگر سست روی سے منصوبوں پر کام کیا گیا تو ایک طویل عرصہ اس کیلئے درکار ہوگا لہٰذا اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بارڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے تو یقینا دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے لوگوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئے گی۔
جس کی امید وہ لئے بیٹھے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اس حوالے سے جلد ہی اہم فیصلے کریں تاکہ اس تجارتی روٹ پر انفراسٹرکچر کی تعمیرکا آغاز ہوسکے اور اس کیلئے وفاقی حکومت سے بھی رجوع کیاجائے تاکہ یہ منصوبہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے اور اس سے بلوچستان حکومت سمیت قومی خزانہ کو بھی فائدہ پہنچ سکے۔