|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2020

ملک میں جب دوہرامعیار کا رویہ حکمرانوں کاہو تو وہاں کسی صورت کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی اس کی توقع مستقل میں کی جاسکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسی روایت نے زور پکڑ لیا ہے کہ حکمران طبقہ خود کو کسی کو بھی جوابدہ نہیں سمجھتے اور وہ تمام تر قوانین سے بالاتر ہیں اور ملکی قوانین صرف غریب لوگوں پر ہی لاگو ہیں،ان کاخون چوس کر ہی ملک کے خسارے کوپوراکرنا ہے اور تمام تر بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنا ہے، چاہے وہ مہنگائی کی صورت میں ہو یا قرضوں کا بھاری بھرکم بوجھ ٹیکس کی مد میں وصولی ہو یہ سب کچھ عوام نے ہی پورا کرنا ہے۔

جبکہ سیاستدان ان تمام مصیبت اور پریشانیوں سے بری الذمہ ہیں،وہ ٹیکس دیں یا نہ دیں ان کی مرضی وہ اپنی جائیداد بیرون ملک بنائیں یا پھر وہ کاروبار کریں ان کی مرضی ومنشاء ہے مگر ہمیں دنیا کو باربار یہ باور کرانا ہے کہ ہمارے ملک میں آکر سرمایہ کاری کریں کیونکہ یہاں پر سرمایہ کاری کے وسیع ترمواقع موجود ہیں۔اب حیرانگی کی بات ہے کہ جو یہ باتیں کرتے ہیں ان کی اپنی بیشتر جائیدادیں اور کاروبار باہر کے ملکوں میں چل رہے ہیں تو کوئی دوسرا کس طرح اعتماد کرکے اپنا سرمایہ ہمارے ہاں لگائے گا،کیا ان کی نظروں سے یہ سب کچھ اوجھل ہے کہ ہمارے ہاں حکومت واپوزیشن اپنے ہی ملک میں ٹیکس دینا ناگوارسمجھتے ہیں۔

جس کی واضح ثبوت حالیہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی فہرست ہے کہ کس پارلیمنیٹرین نے کتنا ٹیکس دیا ہے جس پر ذرا غور کیجئے۔فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی سال 19-2018 کی ٹیکس ڈائریکٹری کی جاری کردہ فہرست میں وفاقی وزراء اور سینیٹرز سمیت کئی اراکین اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ایف بی آر کے مطابق سب سے زیادہ 24 کروڑ 13 لاکھ 29 ہزار 362 روپے ٹیکس شاہد خاقان عباسی نے جمع کرایا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے 2 لاکھ 82 ہزار روپے ٹیکس دیا۔دوسری جانب انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ اس فہرست میں ایسے وفاقی وزراء، سینیٹر اور اراکین قومی اسمبلی بھی شامل ہیں۔

جنہوں نے سرے سے ٹیکس دیا ہی نہیں۔ایف بی آر کے مطابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کوئی ٹیکس نہیں دیا جبکہ سینیٹر فیصل جاوید اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی ٹیکس نہ دینے والوں میں شامل ہیں،اس کے ساتھ وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری، فاٹا سے سینیٹ کے رکن شمیم آفریدی اور سینیٹر رانا مقبول احمد نے بھی ٹیکس جمع نہیں کروایا۔ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق ایم این اے بشیر خان اور محمد ساجد بھی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں شامل ہیں جب کہ زاہد اکرم درانی اور شیر علی ارباب نے بھی ٹیکس نہیں دیا۔

ان کے علاوہ بڑے بڑے بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی ٹیکس نہیں دیتے تو ملک کی معیشت کس طرح بہتر ہوسکتی ہے اور کس طرح سے اعتماد سازی کو بحال کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں ہر طبقہ قانون کے عین مطابق چلتا ہے اور سب پر یہ لاگو ہے۔بدقسمتی سے عوام آج تک حکمران طبقہ کے اخراجات اور ان کے مراعات کا بوجھ اٹھارہی ہے جبکہ رہی سہی کسر قرضوں کے باعث بڑھتی مہنگائی پوری کررہی ہے آج عوام کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہیں مگر وہ روزانہ کی بنیاد پر ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس دیتا ہے۔ بجلی گیس کی بڑھتی قیمتوں کا بھی بوجھ عوام اٹھارہی ہے۔

کیا یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔ خدارا حکومت،اپوزیشن اور دیگر مقتدر طبقات اس کا احساس کریں کہ عوام میں آج کتنا غصہ پایاجاتا ہے کہ ان کے مسیحا انہیں پریشانیوں سے نجات دلانے کی بجائے اپنی مراعات اور لگژری زندگی گزارنے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ جب تک اس دوہرے نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا اس خوش فہمی میں کوئی مبتلا نہ رہے کہ باہر سے لوگ سرمایہ لگانے پاکستان آئینگے کیونکہ رویے اہمیت رکھتے ہیں اور اس پر سب کی نظریں ہیں۔