|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2020

اپوزیشن کی جانب سے 4 صفحات کا اعلامیہ جاری کیاگیا جس کوکل جماعتی کانفرنس قرارداد کا نام دیا گیا ہے،اعلامیے میں 26 نکات شامل ہیں۔ اے پی سی کے بعد مولانا فضل الرحمان نے قرارداد میڈیا کے سامنے پڑھ کر سنائی جس کے مطابق قومی سیاسی جماعتوں کا اتحادپاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ تشکیل دیا گیا ہے، یہ اتحادی ڈھانچہ حکومت سے نجات کیلئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم کرے گا۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آئین، 18 ویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، پارلیمان کی بالا دستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔

اور نہ ہی اس پر سمجھوتہ کیا جائے گا۔قرارداد کے مطابق سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا ہے،قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلانے کامشترکہ فیصلہ کیا ہے جبکہ عدم اعتماد کی تحریک سمیت دیگر آپشنز کو احتجاج کے دوران استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی وزراء نے اے پی سی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اداروں کو متنازع کر کے ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ احتساب سے بچنے کے لیے یہ سارے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کسی اور کے بیانیے پر چل رہے ہیں، جو ادارہ نوازشریف کے کنٹرول میں نہیں آتا وہ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف فواد چودھری کی طرح تندرست لگ رہے تھے، ان کی صرف سیاست نہیں جائیدادیں بھی داؤ پر لگی ہیں۔اسد عمر نے کہا کہ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ جب احتساب کا عمل آگے بڑھے گا تو یہ سب مل جائیں گے اور اپوزیشن کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بھی بلیک میلنگ کی گئی۔اسد عمر نے کہا کہ عمران خان کبھی بھی کسی کو این آراو نہیں دیں گے، نوازشریف کی فوج مخالف تقریر ہندوستان کے اخباروں کی ہیڈلائنز بنی ہیں۔

اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کا اجلاس تضادات کا مجموعہ ہے، آل پارٹیز اجلاس میں مایوسی اور ناامیدی نظرآئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے اپوزیشن کے پاس گئے، انہیں اندازہ تھا کہ حکومت کے پاس نمبرز پورے نہیں ہوں گے مگر اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف بل کی آڑ میں این آراو لینے کی کوشش کی۔گزشتہ روز اے پی سی کے دوران بلاول بھٹو زرداری، مولانافضل الرحمان اور شہباز شریف نے بھی بات کی مگر سب سے اہم سوال یہ اٹھایاجارہا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بغیر کیا اپوزیشن کی تحریک مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

چونکہ جو باتیں نواز شریف نے اے پی سی کے دوران کہیں اس پر عملاََ میدان پر آئینگے،گوکہ قوی امکان ہے کہ نواز شریف کو جیل بھی جاناپڑے مگر جیل کے اندر بیٹھ کر وہ اپنی پارٹی کی قیادت کرینگے۔بہرحال نوازشریف نے اپنے خطاب کے دوران اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ وہ وطن واپس آئینگے مگر فی الوقت ایسے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن خود اندرون خانہ بعض معاملات پر انتشار کا شکار بھی دکھائی دیتی ہے سینیٹ الیکشن کے دوران جو ووٹ حکومتی نمائندگان کو پڑے اس کا سدباب نہیں کیا گیا کہ ان کی صفوں میں خود کتنے ایسی شخصیات ہیں۔

جو اتنی بڑی تحریک کے دوران اپوزیشن کے ساتھ چلیں گے۔بہرحال اس اے پی سی کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ سیاسی ماحول گرم رہے گا مگر فی الوقت یہ کہنا کہ حکومت کیلئے کوئی بڑا خطرہ اس حوالے سے موجود رہے گا تو گزشتہ چند ایک مثالیں اپوزیشن کی موجود ہیں کہ وہ حکومت کو نہیں گِراسکتے البتہ دباؤ برقرار رکھنے کیلئے یہ تحریک چلے گی اور کتنی زور دار انداز میں اس کو چلایاجائے گا یہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پر منحصر ہے کہ وہ خود براہ راست اس کو لیڈ کرینگے۔چونکہ مولانافضل الرحمان کے دھرنے کے دوران بھی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اور مولانافضل الرحمان نے اے پی سی کے دوران شکوے بھی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں سے کئے۔ بہرحال سیاسی دنگل تو سج جائے گا نتائج کی برآمدگی اپوزیشن کی حکمت عملی اور طریقے کار پر منحصر ہے جہاں تک حکومت کی بات ہے تو اس کے صفوں میں کوئی پریشانی فی الحال دکھائی نہیں دے رہی شاید آگے چلکر حالات نیا موڑ لیں اور حکومت کیلئے مسائل پیداہوں تو یہ کہنا قبل ازوقت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اس بار موسم سرماکے دوران سیاسی ماحول زیادہ گرم رہے گا جس کی درجہ حرارت کا مکمل دارومدار اپوزیشن پر منحصرہے۔