کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہا ہے کہ کردار سازی اور ادارے بنانے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے تاہم کوتاہی اور غفلت اداروں کو کم وقت میں ہی تباہ کردیتی ہے، نظم و ضبط کے بغیر خدمات کا تصور ممکن نہیں بلکہ اس سے قوموں میں بگاڑ آتا ہے، موجودہ صوبائی حکومت نے کبھی اظہار رائے اور میڈیا پر قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی ہے، رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2019کے تحت میڈیا کو معلومات تک رسائی حاصل ہوگئی ہے، بلوچستان میں صحافت آسان کام نہیں، حکومت صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لئے کردار ادا کررہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کلب کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں سینئر صحافیوں رشید بیگ، جواد حیدر سمیت دیگر کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی، سیکرٹری انفارمیشن عرفان غرشین، سینئر صحافی رشید بیگ، جواد حیدر، سینئر صحافی انور ساجدی، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضاء الرحمن، بلوچستان یونین آف جانلسٹس کے صدر ایوب ترین، سینئر صحافی سلیم شاید، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اورنگ زیب بادینی سمیت صحافیوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ پریس کلب کے 50سال پورے ہونے پر پریس کلب کے صدر رضا الرحمن سمیت کوئٹہ کے تمام صحافیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیشہ میڈیا کے ساتھ رہے گی،کردار سازی اور ادارے فعال ہونے سے قوم کی صلاحیت سامنے آتی ہے، اداروں کو بنانے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوتاہی اور غفلت اداروں کو کم وقت میں تباہ کرتی ہے جب تک اہل لوگ سامنے نہیں آتے اس وقت تک مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔ نااہل لوگوں کی وجہ سے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔
جس کی وجہ سے ایک عرصے تک سب کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اہل افراد کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود ہی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں تاہم نااہل لوگوں کو ہر کام کا بتانا پڑتا ہے اس لئے قابلیت پر سمجھوتہ کرنے سے امور زندگی کو بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انفرادی سوچ قوموں کو پریشانی سے دور چار کرتی ہے ہمیں زبان رنگ ونسل اور مذہب کی تفریق سے بالا تر ہوکر سوچنا ہوگا آئندہ نسلوں کا خیال کرنا اہم قومی فریضہ ہے۔ سابقہ ادوار میں محکموں میں تعیناتی کرتے وقت میرٹ کو فراموش کیا گیا جو نیک شگون نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب کی بنیاد میرٹ پر رکھی گئی۔نظم وضبط کے بغیر خدمت کا تصور ممکن نہیں بلکہ قوموں میں بگاڑ آتا ہے، اچھے ادارے ہی بہتر لوگوں کو سامنے لاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب اچھا کام نہیں ہوتا تب ہی تنقید ہوتی ہے اور تنقید اس لئے ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کمی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ صوبائی حکومت نے کبھی تحریر وتقریر کی آزادی میں حکومت نے رکاوٹ نہیں ڈالی اور نہ ہی حکومت نے میڈیا ہر قدغن لگانے کی کبھی کوشش کی،ہمیں مثبت کاموں کو بھی سامنے لانا ہوگا۔ حکومت آزادی صحافت کو مزید درست سمت تک لے جارہی ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2019کے تحت میڈیا کو مزید رسائی دے رہا ہے تاکہ بہتر معلومات سامنے آسکیں۔ صحافی اپنے کردار سے لوگوں کو قریب لائے کوئٹہ بلوچستان میں صحافت آسان کام نہیں تاہم میڈیا بلوچستان کو فوکس کرنے کیلئے کردار ادا کررہا ہے۔ بلوچستان وسیع رقبے پر پھیلا ہوا صوبہ ہے اور یہاں شہر اور میڈیا کے لئے وہ چیزیں نہیں کہ جس کی وجہ سے میڈیا بلوچستان کو فوکس کرے۔ بلوچستان کا صحافی سخت حالات سے گزر رہا ہے صوبے کو وسائل کی کمی سامنا نہیں بلکہ یہاں صحافت سمیت ہر شعبے میں سرمایہ کاری کی گنجائش موجود ہے۔ ماضی میں سی اینڈ ڈبلیو، ایری گیشن سمیت صرف 3محکموں کو فوکس کیا گیا تھا۔
فنڈز صرف اور صرف 3محکموں کے لئے مختص ہوتے اس ناقص حکمت عملی کو حکومت نے تبدیل کیا ہے۔ حکومت نے اپوزیشن حلقوں کو نظر انداز کرنے کا کلچر ختم کردیا ہے تمام اضلاع میں یکساں طو رپر ترقیاتی کام کئے جارہے ہیں۔ ضلع خضدار اور ضلع پشین سے منتخب تمام نمائندے اپوزیشن سے ہیں اس کے باوجود وہاں حکومتی اراکین کے حلقوں کی طرز پر ترقیاتی کام جاری ہیں مخصوص حلقوں کو نوازنے کا عمل عوامی اہمیت کھو دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں صلاحیت کی کمی نہیں لیکن یہ نظر آنا چاہیے۔ صوبے میں اب تک صرف 8یونیورسٹیاں ہیں جن میں آدھے کیمپسز ہیں۔
جب تک تعلیمی ادارے قائم نہیں کئے جاتے اس وقت تک صوبہ ترقی نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹیلنٹڈ لوگ سامنے آسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ صوبے میں کالجز اور یونیورسٹیاں بڑھائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کو بہتر انداز میں خرچ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کی کینٹین اور میڈیا اکیڈمی کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ ہاؤسنگ اسکیم میں گھر بنانے کی سکت نہ رکھنے والوں کی حکومت مالی معاونت کرے گی۔ صوبائی کابینہ میں جرنلسٹ ہاوسنگ اسکیم کے قیام کی منظوری جلد دے گی بلکہ جلد ہی ہاوسنگ اسکیم کے ٹنڈر جاری ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ احساس ذمہ داری بڑھے گی۔
تب ہی بہتری ممکن ہے حکومت نے دو سالوں میں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سازی کیلئے سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ حکومت بلوچستان بھر کے بڑے شہروں کی ضروریات کو پورا کرے گی۔اس موقع پر وزیر خزانہ بلوچستان میر ظہور بلیدی نے اپنے خطاب میں پریس کلب کے بانی ممبران کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا لگایا پودا تناور درخت بن چکا ہے حق کی بات میں شہید ہونے والوں نے فرض پر جان قربان کی، صحافت ریاست کا چھوتھا ستون ہے۔ صحافی حکومت کی خامیوں کو سامنے لاتے اور ترقیاتی کاموں کو اجاگر کرتے ہیں۔
صحافت عوام کی ترجمانی کانام ہے جب کسی کی حق تلفی ہوتو وہ میڈیا سے وابستہ افراد سے رابطہ کرتاہے صحافیوں کی کاوشیں قابل ستائش ہیں وزیر اعلی جام کمال کی سربراہی میں حکومت بنی وزیر اعلی کی پریس کلب اور صحافیوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔حکومت نے معلومات تک رسائی کا قانون منظور کیا حکومت نے اس بل کے ذریعے اپنے آپ کو احتسابی عمل کیلئے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ خود وزیر اطلاعات تھے تووہ خود مختلف ٹی وی چینلز کے دفاتر گئے اور ان سے استدعا کی کہ الیکڑانک میڈیا بلوچستان کو کوریج زیادہ دے، انہوں نے کہا کہ میڈیا حکومت پر تنقید کے ساتھ نفرتوں کو کم کرنے میں کردار ادا کرے۔
مقامی اخبارات کے مسائل زیادہ ہیں جس کیلئے انہوں نے کمیٹی کے زریعے مسائل حل کرنے کی تجویز رکھی اخبارات کی ترسیل کیلئے خاص توجہ کی ضرورت ہے ان کا کہنا تھا کہ حق کی آواز کا سفر کامیابی کے ساتھ بڑھے گا میڈیا حکومت کی رہنمائی کرتا رہے۔ اس موقع پر سینئر صحافی سلیم شاہد اور انور ساجدی اور پریس کلب کوئٹہ کے صدر رضا الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رشید بیگ نے کلب کی حالیہ عمارت کو عملی شکل دی 70کے دہائی میں انہوں نے اسے قبضہ مافیا سے نجات دلاکر عام ممبران کیلئے بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پریس کلب کی تاریخ صوبے کے ساتھ جڑی ہے قوموں کی تاریخ میں ادارہ ہے۔
سازی بنیاد ہوتی ہے بلوچستان میں ادارے بنے نہیں دئے گئے بلوچستان میں بہت محبت اور صلاحیت کے مالک لوگ ہیں کوئٹہ پریس کلب کو ہائیڈ پارک کادرجہ حاصل ہے انہوں نے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1972میں اس پیلٹ فارم سے آزادی صحافت کا آغاز ہوا، صوبائی حکومت نے میڈیا کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن میڈیا مالکان نے از خود قدغن لگارکھی ہے۔ انہوں نے رشید بیگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 32 قبل انتخاب اخبار جوائن کیا اور ریٹائرمنٹ تک صحافت میں ایمان داری کا دامن نہیں چھوڑا۔
انہوں نے وزیر اعلی سے درخواست کی کہ کلب چاردیواری میں توسیع کے لئے کردار ادا کرے۔ کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے کہا کہ 1972میں گورنر بلوچستان نواب غوث بخش رئیسانی نے سنگ بنیاد رکھا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو،نواز شریف، نواب بگٹی سمیت قابل قدر لوگ اس کلب کو رونق بخشتے رہے اس عمارت کا افتتاح وزیر اعلی جام یوسف نے کیا تھا،موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی نے صحافیوں کی ہاوسنگ اسکیم پر عمل درآمد شروع کروایا، صحافیوں کے مطالبے پر میڈیا اکیڈمی کیلئے 30کروڑ جاری کئے جس کی عمارت کھڑی ہوچکی ہے میڈیا اکیڈمی میں رہائشی کمروں کیلئے ایک کروڑ نوے لاکھ جاری کئے۔
پریس کلب میں جدید کینٹین کیلئے وزیر اعلی نے 3 کروڑ کے لئے منظور کروائے جس پر ہم ان کے مشکور ہے تاہم پریس کلب کی سالانہ گرانٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر2کروڑکروانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ صحافیوں کیلئے ہاوسنگ اسکیم کو آسان بنایا اس تاریخی موقع پر وزیر اعلی ہاوسنگ اسکیم چھت دینے کا تاریخی اقدام کریں موجودہ دور میں صحافی ہی مظلوم طبقہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا اہم ستون مشکل میں ہے صحافتی اداروں سے وابستہ لوگوں نے ہمیشہ وفاق میں جاکر بھی بلوچستان کی لڑائی لڑی ہے صحافیوں نے بلوچستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑا۔
وزیر اعلی مقامی اخبارات کو آکسیجن دینے کا کام کریں ان کا بجٹ نہیں بڑھا، یہ صنعت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے متعلقہ محکمے نے بے یارومددگار چھوڑا دیا ملک بھر سے سینکڑوں صحافی کوئٹہ آرہے ہیں حکومت کلب کے ساتھ تعاون کرکے اچھا تاثر قائم کرے انہوں صدیق بلوچ۔اکبر اچکزئی ماجد فوز اور شھدائے صحافت کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلی کلب کی توسیع ہنگامی بنیادوں پر کرینگے۔