|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2020

بلوچستان ملک خداداد پاکستان کا وہ پسماندہ صوبہ ہے جو معدنی دولت سے مالامال ہونے کے سبب پوری دنیا میں اپنی معدنیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اس کے مکین خصوصاً نوجوان ایک عرصے سے بے روزگاری سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ پولیس نصیر آباد کی جانب سے مختلف آسامیوں کی چند پوسٹوں کے لئے ہزاروں نوجوانوں کی قسمت آزمائی کی خبریں شائع ہوئیں جس میں الزام لگایاگیا کہ اس میں موجودہ اور سابقہ وزراء کی اقربا پروری کی شکایات موصول ہوئیں جانبداری اس قدر کہ ایک معذور شخص کو بھی سفارش پر لیا گیا،ہوسکتا ہے کہ یہ معذوروں کے کوٹہ پر ملازمت کے لئے لیا گیا۔

ہو لیکن ایک پولیس کانسٹیبل کی آسامی کے لئے معذور شخص کی تعیناتی سے سوال تو اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ بہر حال یہ تشویشناک صورت حال دیگر صوبوں اوروفاقی محکموں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ان آسامیوں کے لئے اخبارات میں اشتہارات دئیے جاتے ہیں انٹری فیس کے نام پر بے روزگاروں سے ہزاروں روپے اور تعلیمی اسناد کے نام پر فوٹو سٹیٹ کرانے پر خطیر رقم ہتھیا لی جاتی ہے یہ نوجوان اپنے والدین اور معاشرے پر اس قدر بوجھ بنتے جارہے ہیں کہ اب تو صوبے میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ چپڑاسی کی آسامی کے لئے بھی ایم اے پاس نوجوان اپنے تعلیمی اسناد جمع کراتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں صوبائی سطح پر آئے روز ملازمتوں کے لئے اخبارات میں اشتہارات نظروں سے گزررہے ہیں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان آسامیوں کے لئے ٹیسٹ اور انٹر ویوز کے منسوخی کے بار بار اعلانات کیے جاتے ہیں۔اس میں کئی ایک فیکٹر محسوس کیے جا سکتے ہیں سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ”سفارش کلچر“ نے ہمارے سرکاری اداروں میں اس حد تک اپنی جگہ بنا لی ہے کہ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اب یہ اسامیاں محض اور محض صوبائی وزراء اور بیورو کریٹس کے عزیز واقارب کے لئے ہی مختص ہوکر رہ گئے ہیں غریب طلباء محض اپنے تعلیمی اسناد ان محکموں میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔

انہیں ملازمت ملنا آج کل جس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے اس کاتصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ایک زمانہ یہ تھا کہ چپڑاسی سے لے کر کلرک کیلئے ٹیسٹ اور انٹر ویو کا مرحلہ طے کرنے کے بعد ملازمت کامیاب نوجوانوں کو دی جاتی تھی اب صورت حال انتہائی خوفناک ہے خوفناک اس طرح کہ چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے لئے پانچ لاکھ سے بولی شروع ہوتی ہے جو بتدریج ملازمت کی نوعیت کے حساب سے بڑھتی جاتی ہے یعنی چپڑاسی کی آسامی بھی پانچ لاکھ سے کم پر نہیں ملتی۔ میری یہ بات سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے میں یہ بات کسی مفروضے کی بنیاد پر تحریر میں نہیں لا رہا کہ حقیقت کامیں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔

اور دوستوں کی زبانی بھی اس بات کا پتہ چلا ہے کہ اب ہمارے ارباب اختیار چپڑاسی کی آسامی فروخت کرنے پر بھی ذرا بھر ندامت محسوس نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ اتنے میں یہ آسامی قبول ہے تو ٹھیک ورنہ ہمارے پاس آپ سے بڑھ کر رقم دینے والے ”گاہک“ موجود ہیں۔ یہ بھی افسوس ناک صورت حال ہے کہ سرکاری محکموں میں ٹیسٹ و انٹرویو کی تاریخ بار بار ملتوری کرنا اب روز کا معمول بن چکا ہے، بیورو کریٹس اور وزراء کے لئے انٹر ویوز کا آئے دن منسوخ کرنا شاید کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن ایک بے روزگار نوجوان جو کہ عرصہ ہوا اپنی تعلیم مکمل کرکے اب اپنے گھرانہ پر بوجھ کی صورت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو کر ہر نئے دن اس امید کے ساتھ سرکاری نوکری کیلئے قسمت آزمائی کرتا ہے۔

کہ شاید اسے بھی کسی محکمہ میں سرکاری نوکری ملے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ اب نوکری حاصل کرنا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہ رہی۔اب اس کے طریقہ کار میں بیورو کریٹس اوروزراء نے اس طرح تبدیلی کردی ہے کہ عام نوجوان کیلئے نوکری کا حصول تقریباً نا ممکن ہو کر رہ گیا ہے مجھے رہ رہ کر کانک کے دو ایم اے پاس بھائی بے ساختہ یاد آتے ہیں جنہوں نے میرے دفتر آ کر اپنی روائیداد سنائی کہ ان کا والد ایک مستری ہے جس نے انتہائی تنگدستی میں ہم بھائی بہنوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ تعلیم سے محروم رہا لیکن اس کی اولاد اس سے محروم نہ رہے۔

اس لیے انتہائی تنگدستی میں ہم سب بہن بھائیوں نے کانک میں رہتے ہوئے ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سے ہم بھائیوں نے ایسا کوئی محکمہ نہ چھوڑا جہاں ہم نے قسمت آزمائی کیلئے ٹیسٹ اورانٹر ویو نہ ئیے ہوں لیکن انتہائی دکھ کی بات ہے کہ یہ دونوں بھائی میری اپنی ذاتی کوششوں کے باوجود اب تک سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکے جس کا مجھے شدید دکھ زندگی بھر رہے گا۔ میں نے ان کیلئے ذاتی طورپر کوشش کی کہ کسی طرح سے یہ غریب تعلیم یافتہ نوجوان کوئی ایک نوکری تو حاصل کر سکیں لیکن افسوس کہ میں اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔

آج یہ دونوں بھائی ایم اے پاس کرنے کے باوجود چپڑاسی کی نوکری کے لئے بھی اپنے کاغذات جمع کراتے نظر آتے ہیں۔ یہ صرف دو نوجوانوں کی مثال میں یہاں بیان کررہا ہوں ایسے سینکڑوں نوجوان اپنی نوکری کی عمر سے گزر کر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ایک اور نوجوان جو کہ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں انگریزی کی کلاسیں لیتا تھا گزشتہ دنوں مجھے اچانک رکشتہ چلاتے ہوئے ملا،میں نے پوچھا یہ کیوں؟ اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے با امر مجبوری رکشہ چلانے کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔

اس طرح کی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں صوبائی سطح پر بھی ملازمتیں نہیں وفاق کی سطح پر بھی صوبائی کوٹہ کو جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بلوچستان سے چھینا گیا ہے اس بارے میں بھی حالیہ دنوں اخبارات میں تواتر کے ساتھ خبریں شائع ہوئیں کہ کتنے ہزار افراد پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر وفاقی محکموں میں تعینات ہیں اس بارے میں صوبائی حکومت اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے جعلی ڈومیسائل بارے چھان بین کی جارہی ہے اس میں صوبائی حکومت کتنی کامیاب ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؟ البتہ میں صوبائی وزراء اور بیور وکریٹس خصوصاً سیکرٹری صاحبان سے دست بدستہ اپیل کرتا ہوں کہ جس طرح حکومتی ملازمتوں میں ”معذوروں کا کوٹہ“ مختص کرکے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔

بالکل اسی طرح ”غریب طلباء“ کا کوٹہ بھی مختص کریں اور اپنے رب کے آگے بھی سرخرو ہوں کیونکہ انہیں اس سوسائٹی میں اپنی زیادتیوں کا ایک دن اللہ کے حضور جواب دینا ہے اس لیے انہیں چائیے کہ وہ ان غریب طلباء کا بھی خیال رکھیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال کو بھی چائیے کہ وہ اس سلسلے میں ٹیسٹ و انٹر ویوز کے بار بار ملتوری ہونے کے بارے میں سختی سے نوٹس لے کر صاف اور شفاف نظام رائج کریں تاکہ ان غریب طلباء کو بھی ”سرکارکی نوکری“ کرنے کا موقع ملے کیونکہ ان کے غریب والدین کا کل اثاثہ یہ غریب بچے ہیں جنہیں انتہائی مشکل حالات میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرایا ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کہ نہ حوصلہ شکنی کی؟