گوادر: گوادر کی قدیم آبادی جہاں ماہیگیر ہزاروں سال سے آباد ہیں اور جن کا اس زمین پر پیدائیشی اور بنیادی حق بنتا ہے لیکن حالیہ اور گزشتہ حکومتی پالیسیاں ماہیگیر دوست کی بجائے ان کی زندگی روزگار معیشت اور معاشرے کے لیئے زندگی آموز نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ماہیگیر رہنما خداداد واجو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے ماہیگیر بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔
جب سی پیک کے نام سے ایک بڑے پروجیکٹ کا آغاز ہوا تو لوگوں نے یہ سوچا کہ اس پروجیکٹ کا اصل مقام اور نقطہِ آغاز چونکہ گوادر ہے تو ضروز اس کے مثبت اثرات یہاں کے مقامی آبادی کی زندگی و معشت و معاشرت پر بہتر پڑینگے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا کیونکہ ساحلِ سمندر ماہیگیروں کے شکار گاہیں تو پہلے ان سے چن چکی تھیں اور جو بچاکچا رہ گیا۔
یعنی ایسٹ بے تک ماہیگیروں کی آسان رسائی اور روزگار کے بہتر مواقع تھے لیکن وہ بھی ایکسپریس وے کی پروجیکٹ کی وجہ سے متاثر ہونے کی صورتحال سے دوچار تھے اور ماہیگیر اس کی وجہ سے ایک ازیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں ماہیگیر قیادت نے ماہیگیروں کی روزگار اور سمندر تک رسائی کے لیئے متبادل طریقہ کار واضع کرنے کے لیئے کوششیں شروع کرکے زمہ دار اداروں سے گفتگو جاری رکھی۔
اور ساتھ ہی پچھلے دو تین دو تین سال سے احتجاج کا سلسلہ بھی مختلف شکل میں جاری ہے۔ تاکہ اس پروجیکٹ میں گوادر کی مقامی آبادی کے لیئے گنجائش نکالی جاسکے جس کے لیئے اچھی خاصی پیش رفت ہوئی لیکن درمیان میں کچھ چیزیں حائل رہیں۔ جسکی وجہ سے آج اس پریس کانفرنس کا اھتمام کیا گیا ھے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ترقی سے متعلق پالیسیوں کو دیکھا جائے۔
تو آج بھی گوادر کے عوام کو شامل نہ کرکے ماہیگیروں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ انکی زندگی و موجودگی کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی انکے روزگار کے حوالے سے کسی بھی سطح پر پالیسی لائن موجود ہے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے غیر سنجیدہ رویوں نے ماہی گیروں کے زہنوں میں کئی سوالات و خدشات اور غیر یقینی کی صورتحال کو جنم دیا ھے اور ماہیگیر کو ایک طرح سے بدگمانی اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا کرکے انہیں اپنی زندگی غیر محفوظ اور معاشی عدم تحفظ کی گمبھیر صورتحال سے دوچار دکھائی دیتے ھیں۔
حکومتی اداروں کی اس غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے ایک بے اعتباری اور غیر یقینی صورتحال نے جنم لیا ہے اور ماہیگیر اپنے مطالبات کی منظوری کے لیئے آج بھی میدان عمل میں یہ سوچ کر جدوجہد کررہے ہیں کہ شاید کبھی تو غم اور پریشانیوں کے بادل انکے سروں سے چھٹ جائیں گے اور خوشحال زندگی کا سفر شروع ہوگا لیکن جی ڈی اے اور ادارہ ماحولیات کی سست روی نے نہ صرف ماہیگیروں کے غم و غصے میں اضافہ کیا بلکہ ان نا اہل اداروں کی عدم دلچسپی نے اس اہم ایشو کو متنازع بنا کر لوگوں کے زہنوں میں بہت سے سوال پیدا کرنے کے باعث بنے ہیں۔
انہونے کہا کہ ماہیگیر آج بھی سمندری طوفان و تیز لہروں کی وجہ سے بار بار جانی و مالی نقصانات کا سامنا کررہے ہیں اور اب دیمی میں سمندر کا کنارہ بھی نہیں رہا جس پر قبل ازیں ماہیگیر ہنگامی صورت حال میں اپنی کشتیوں کو تحفظ یا عام صورتحال میں چونا چربی و مرمت کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
انکا کہنا تھا کہ گوادر ماہیگیر اتحاد نے 11 اکتوبر 2018 کو دیمی زر میں شعبہ ماہیگیر کی بقاء کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا جو آج بھی جاری و ساری ہے اور تمام متعلقہ اداروں سمیت وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو باور کروایا کہ گوادر اور ماہیگیر ناگزیر اکائی ہیں۔