|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2020

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے استعفوں کا کوئی خوف نہیں ہے،اپوزیشن نے استعفے دیئے تو ضمنی الیکشن کرادیں گے، حکومت کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ہمارے کچھ وزیرتجزیہ کاربن کراؤن گول کردیتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا ہے کہ حکومت اور فوج کو لڑوا دیا جائے۔ نواز شریف کی تقریر کو نشر کرنے کی اجازت دینا درست فیصلہ تھا، تقریر بھارت کے بیان کا عکس تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی کا اندازہ نہیں ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی اورن لیگ دونوں اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔

نواز شریف کھیل سے باہر ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے لیے کچھ بھی کریں گے۔ نوازشریف امیرالمومنین بن کر اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ حکومت اور فوج کی موجودہ ہم آہنگی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے۔ میرا ویژن ایسا پاکستان ہے جس کے ہاتھ میں کشکول نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط بنانا ممکن نہیں ہے۔ ہر جماعت میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یو ٹرن ہمیشہ ایک مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ میں نے پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ پاورکا استعمال کیا ہے۔

اپوزیشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو اس لیے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس لوگ نہیں ہیں۔اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت اور فوج کے درمیان لڑائی کرانا ہے۔ نواز شریف مایوس ہوچکا ہے اور وہ حکومت اور فوج کے درمیان موجود تاریخی ہم آہنگی کو توڑنا چاہتا ہے۔ ن لیگ ہو یا ش لیگ، یہ لوگ صرف خاندانی سیاست کریں گے۔کرپشن پر کسی کو بھی این آراو نہیں دوں گا۔ پرویز مشرف نے این آر او دینے کی غلطی کی تھی اس غلطی کے نتیجے میں دس سال کے دوران پاکستان میں لوٹ مار انتہا کو پہنچی۔

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے اے پی سی اور اپوزیشن جماعتوں وعسکری قیادت کے درمیان ملاقات کے بعد یہ تفصیلی بات چیت گزشتہ روز سینئر صحافیوں کے ساتھ کی تھی چونکہ گزشتہ چند روز سے وفاقی وزیر شیخ رشید مسلسل اپوزیشن پر تابڑتوڑ حملے کررہا ہے اور ملاقاتوں کا احوال بتارہاہے، اوراپوزیشن کومزید چیلنجز بھی کر رہاہے۔دوسری جانب اپوزیشن اِن کیمرہ ملاقاتوں کی باتوں کو پبلک کرنے پر سخت ردعمل دکھا رہی ہے کیونکہ اس کی ایک بڑی وجہ اے پی سی کے دوران اپوزیشن کا اعلامیہ تھا جس پر خاص کر اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنے کی بات کی گئی تھی۔

اور ساتھ مسلم لیگ ن کے قائدمیاں نواز شریف کی تقریر ہے جس میں سیاسی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ودیگر معاملات شامل تھے۔بہرحال مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز اور نواز شریف اب بھی بات کررہے ہیں مگر ملاقاتوں کے احوال پر اب بھی بعض حلقے سوالات اٹھارہے ہیں کہ اتنا سخت گیر مؤقف رکھنے کے باوجود بھی ملاقات کو خود اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران نے خفیہ رکھا جبکہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن خاص طور پر نوازشریف اور مریم نواز لاعلمی کا اظہار بھی کر تے رہے مگر عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ وضاحتیں قابل قبول دکھائی نہیں دے رہیں۔

بلکہ ایک نئی بحث چھڑچکی ہے مگر جو سیاسی ماحول بن رہا ہے اس کا بہترین حل یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملکر سیاسی معاملات کو حل کریں۔اگر پارلیمان مضبوط ہوگا تو سیاسی حکومتیں مستحکم ہونگی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی چپقلش اور اختلافات ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ بنتی ہیں اور اسے بہتر کرنا بھی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے بجائے الزام تراشی کے اپنی غلطیوں کا خود ہی ازالہ کریں۔