کوئٹہ: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک کسی ادارے کی ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتا ملک کے فیصلے 22کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو کرنے دیاجائے،ہمیں ملک کے تمام ادارے عزیز ہیں اس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا،ملک چلانے کا واحد راستہ ہر انسان کی عزت کرنے اورتمام اقوام کی برابری میں ہے،ملک انصاف سے ہی چل سکتا ہے۔
انصاف کے بغیر تو گھر کا چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا، آج بھی ایسے لوگ حکومت میں شامل ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی بغیر اقتدار کے نہیں رہے کبھی انگریز تو کبھی ڈکٹیٹر کے ساتھ رہے اورآج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ صحافت کی آزادی،آئین کی بالادستی اورجمہوریت پر یقین رکھنے کا وعدہ سب کو کرنا ہوگا، صحافیوں کے حقوق کیلئے ان کی جدوجہد میں نہ صرف ان کے ساتھ ہیں بلکہ صحافت کی آزادی کیلئے ہر حد تک ان کے ساتھ جانے کو تیار ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ایف ای سی کے اجلاس کے شرکا کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی و صوبائی کابینہ کے اراکین، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر محمد ایوب ترین،، سلیم شاہد و دیگر بھی موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ صحافت کی آزادی،آئین کی بالادستی،جمہوریت پر یقین رکھنے کا وعدہ سب کو کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ میں نے پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں کہاتھاکہ جنہوں نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ان کی سخت الفاظ میں مذمت کی جائے ہم چاہتے ہیں کہ آئین کی پاسداری کی جائے میں جب دوسری بار پارلیمنٹ پہنچا تو میں نے یہ کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں لیا جانے والا حلف اگر صرف خانہ پوری کے لئے ہے تو نہیں لیں گے اور اگر اس پر عملدرآمد کرنا ہے تو سب کو اس کی پاسداری کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں اور پشتونوں میں راہ چلتے ہوئے بھی جب زبان دی جاتی ہے پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی، ملک انصاف سے ہی چل سکتا ہے انصاف کے بغیر تو گھر کا چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا، پھر ایک ایسا ملک جہاں مختلف اقوام آباد ہوں کیسے چل سکتا ہے، عوام کے ووٹ سے منتخب پارلیمنٹ طاقت کو سرچشمہ ہونا چاہیے، انہوں نے کہاکہ آئین کی بات کرنے والا غدار نہیں بلکہ غدار کا تعین آئین کے آرٹیکل 6 میں واضح طور پر کیا گیا ہے، پاکستان ہمارا ملک اور ایک فیڈریشن ہے اس میں رہنے والی تمام اقوام اپنی اپنی زبانیں بولتی ہیں۔
اور سب کو آئین نے ایک دوسرے سے جوڑے رکھا ہے۔ ہم نے اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں اور اس کے دفاع کا عہد کیا۔انہوں نے کہاکہ میری اے پی سی میں کہی گئی ایک بات کو لیکر کہاگیاکہ یہ ملک توڑنا چاہتے ہیں میں واضح کرناچاہتاہوں کہ ہرانقلاب کا آغاز انکارسے ہوتا ہے جس قوم کے بچوں میں انکارنہ ہو تو انہیں جینے کا حق نہیں ہوتا ہمارے انکار کو بغاوت نہ سمجھاجائے جو ٹھیک نہ سمجھیں توانکا رہی کرینگے۔
اگر کسی کو میری شکل پسند نہیں تو میں وعدہکرتاہوں کہ میں انتخابات میں حصہ نہیں لوں گامگر گارنٹی دینی ہوگی کہ یہاں آئین کا بول بالا ہوگا وسائل پر سب سے پہلا حق وہاں کے عوام کا ہوگا تمام زبانوں کا احترام کرنا ہوگا، بلوچ اور پشتون غریب لوگ ہیں لیکن انہیں چھیڑنے سے بہت بڑا طوفان آئے گا،انہوں نے کہاکہ ہم نے جو کچھ کہاوہ نہیں مانا گیا ون یونٹ کو ہم نے بربادی کا راستہ قراردیامگر ہماری نہیں سنی گئی بعد میں خود تسلیم کرکے ون یونٹ کو ختم کردیاگیا۔
ہم نے کہاکہ ملک کو آئین کی ضرورت ہے مگر نہیں مانا گیا بعد میں 1973ء کاآئین بنایا گیا مگر اسے تسلیم نہیں کیا جارہا یہ پالیسیاں بربادی کاراستہ ہیں اس سے ملک خانہ جنگی کی طرف جارہاہے جو کسی کے مفاد میں نہیں طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں بھارت ہم سے زیادہ غریب ہے لوگ فٹ پاتھ پرپیداہوکر فٹ پاتھ پر مر جاتے ہیں لیکن انہوں نے بھی جمہوریت کا راستہ اپنایا، لیکن یہاں ایٹمی قوت رکھنے والاملک قرضوں کے بوجھ تلے دباہواہے۔
بلوچستان کی پوری آبادی پنجاب کے ایک ضلع کے برابر بھی نہیں مگر یہاں کے لوگوں کوایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اس صوبے کے وسائل دنیا کے کسی ملک میں نہیں سوئی گیس ختم ہوگئی لیکن وہاں کے لوگوں کی حالت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ملک کسی ادارے کی ڈکٹیشن پر نہیں چل سکتا ملک کے فیصلے 22کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو کرنے دیاجائے،ہمیں ملک کے تمام ادارے عزیزہیں اس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہ ایجنڈا سب کاہونا چاہیے،ملک کے تمام اداروں بشمول فوج،عدلیہ،پریس سمیت سب کو اپنے حدود میں رہتے ہوئے کام کرناہوگاانہوں نے کہاکہ قائداعظم کے بعدپاکستان کو جن کے حوالے کیا گیا ان میں ایسا کوئی نہیں تھا جس نے آزادی کیلئے جدوجہد کی ہو،پاکستان چلانے کیلئے اس وقت سیاسی لوگوں کی ضرورت تھی جن میں خیبر پختونخوا،سندھ،پنجاب اور بلوچستان کے اکابرین موجود تھے مگر ان پر بیک جنبش قلم پابندی لگا کر انہیں آزادی مخالف قراردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ملک چلانے کیلئے مخصوص لوگوں کاانتخاب کیا گیا جو قائداعظم سے لیکر آج عمران خان کی حکومت میں شامل ہیں یہ وہ پرندے ہیں جس عمارت پر بیٹھتے ہیں اس کوکھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں،انہوں نے کہاکہ آج بھی ایسے لوگ حکومت میں شامل ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی بغیر اقتدار کے نہیں رہے کبھی انگریز تو کبھی ڈکٹیٹر کے ساتھ رہے اورآج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آل پارٹیز کانفرنس میں تجویز دیتی تھی کہ ایسے لوگوں کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی جماعت میں شامل نہ کرئے بلکہ ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگانی ہوگی اورجمہوریت کیلئے جن لوگوں اور کارکنوں نے قربانیاں دیں،قید وبند کی صوبتیں برداشت کیں انہیں ہیرو قراردیکر ان کے خاندانوں کی مالی امداد کی جائے اور شہادتیں دینے والوں کوشہداء جمہوریت قراردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران جب ملک مشکلات سے گزررہا تھا امریکہ امداد سے انکاری تھا تو افغانستان نے پاکستان کے ساتھ رنجشوں اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان کا ساتھ دیا،40 سے 50 سال سے افغانستان میں قتل عام جاری ہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے پشتونخواملی عوامی پارٹی کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے حسب روایت بلوچستان آنے والے صحافیوں کی مہمان نوازی کی۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک میں سیاست جس بحران کاشکارہے بالکل اسی طرح میڈیا کوبحران کاسامناہے،7سے 8ہزار میڈیا ورکرز بے روزگار ہوگئے ہیں حالت یہ ہے کہ کوئٹہ میں تین بڑے ٹی وی چینلز کے دفاتر بند ہوگئے ہیں اخبارات کا ریجنل پریس کوٹہ ختم کردیاگیاہے اشتہارات پر 60فیصد کٹ لگایاگیاہے موجودہ حکومت نے سابق دور حکومت کے اشتہارات کی مد میں واجب الادا رقم روک لی ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ صحافی خود اداروں کو چھوڑ کر چلے جائیں موجودہ گھمبیر صورتحال میں ہمارے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم تمام شعبوں کے مسائل اجاگر کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف سوشل میڈیا کافورم بچاہے تاہم اس کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اس کے خلاف 2017ء میں قانون سازی کی کوشش بھی کی گئی جس کے خلاف ہیومن رائٹس کمیشن،صحافیوں اور پاکستان بار نے بھرپور آواز اٹھائی لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا،سیاسی جماعتوں کوبھی اس سلسلے میں کرداراداکرناچاہیے،انہوں نے کہاکہ صحافیوں نے ہمیشہ جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کی جنگ لڑی ہے، صحافی معاشرے کے مسائل اجاگر کرتا ہے صحافت کی آزادی کی بحالی کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے میڈیا کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور دیگراکابرین نے صوبے میں آئین کی بالادستی اور صوبائی خودمختاری کیلئے بے مثال قربانیاں دیتے ہوئے قید وبند کی صوبتیں برداشت کیں اورخانشہید عبدالصمد خان اچکزئی نے عوام کے حقوق کیلئے اپنی جان تک قربان کردی آج محمود خان اچکزئی جیسی قیادت جمہوریت کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی مٹی بڑی زرخیز ہے یہاں کی تاریخ مزاحمت،قربانیوں کی تاریخ ہے بلوچستان کے بزرگ اور نوجوان آئین اورجمہوریت کیلئے آج بھی آواز بلند کررہے ہیں،بلوچستان کے لوگ اورسیاسی قیادت چاہتے ہیں کہ انہیں آئینی حقوق دئیے جائیں، انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت اور میڈیا کی آزادی ایک دوسرے لئے لازم و ملزوم ہیں، میڈیا تب آزاد ہوگا جب ملک میں مکمل اور حقیقی جمہوریت ہوگی۔