|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2020

خضدار: نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی،سینیٹر کبیر محمد شہی،سینیٹر میر طاہر بزنجو اور سینیٹر کہدہ محمد اکرم بلوچ نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار تک محدود نہیں ہو گا تب تک پاکستان میں استحکام ممکن نہیں،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت جب تک اپنا قبلہ درست نہیں کرینگے تب تک آل پارٹیز کانفرنسوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

حکمران اگر بلوچستان میں خوشحالی اور استحکام چاہتے ہیں تو وہ فلسفہ میر حاصل خان بزنجو کا نذریہ اپنائیں جہاں تک نیشنل پارٹی کی دور حکومت میں پہنچی تھی،چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں غیر جمہوری قوتیں اپنی طاقت کی زورپر میر حاصل خان بزنجو کی جمہوری سوچ کے سامنے رکاوٹ بن گئے ان رکاوٹوں کا تذکرہ میر حاصل خان بزنجو نے اپنے انٹریو میں واضح کیا تھا،دنیا میں ریاست کی حیثیت ماں کی ہوتی ہے مگر یہاں صورتحال مختلف ہے تربت میں بلوچ طالب علم کا قتل اس کا واضح مثال ہے طاقت ور قوتیں 18 ویں ترمیم کو ملک کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔

اگر اٹھارویں ترمیم ملک کے لئے خطرہ ہے تو طاقت ور قوتیں یہ بتائیں کہ وہ کس طرح بلوچ،پشتون سندھی سمیت تمام اقوام کو حقوق دئیے بغیر یکجا رکھ سکیں گے بی این ایم اگر میر حاصل خان بزنجو کی جماعت سے 2003 ء کے بجائے 1986 میں انضمام کرتے تو آج بلوچستان کے حالات مختلف ہوتے کارکن آنے والے تین سالوں میں نیشنل پارٹی کو طاقت قومی جماعت میں تبدیل کر دیں،حاصل خان بزنجو نے بندوق کے مقابلے میں دلیل منطق اور جمہوری سیاست کو ترجیح دی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء مرحوم سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کے چہلم کے موقع پر بیزن پور نال میں منعقدہ تعزیتی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا جلسہ عام سے نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے سیاست دان تھے ان کے انتقال سے نہ صرف نیشنل پارٹی کو بلکہ بلوچستان اور پاکستان کی جمہوری سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

ہم بلوچستان کے عوام سے عہد کرتے ہیں کہ ہم فکر بزنجو کو ہر صورت عملی جامعہ پہناتے ہوئے یہاں کے عوام کے سیاسی سماجی اور قومی حقوق کی جدو جہد کرینگے ڈاکٹر مالک بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں میر حاصل خان بزنجو کی جماعت سے انضمام 2003 ء کے بجائے 1986 ء میں کرنا چائیے تھا اگر ہم 1986 ء میں انضمام کر لیتے تو اس انضمام کی بدولت آج بلوچ قومی تحریک اور بلوچستان کی صورتحال مختلف ہوتے انہوں نے کہا کہ 2018 ء کے انتخابات سے قبل ہمیں جو پیغامات دئیے گئے ہم ان پیغامات کو بالا طاق رکھ کر جمہوریت کا ساتھ دیا اور جمہوری قوتوں کے ساتھ ملکر انتخابات میں حصہ لیا۔

ووٹ کو عزت دو عوام کو عزت دو کا نعرہ بنیادی طور پر میر غوث بخش بزنجو کے جمہوری جدو جہد کا نعرہ تھا جسے نواز شریف نے اپنایا ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ میں اہل بلوچستان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم قومی جدو جہد میں میر حاصل خان بزنجو کے فلسفہ اور سوچ کو پروان چڑھاکر آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں گے نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سرزمین کے لئے بزنجو خاندان کی قربانیاں نا قابل فراموش ہیں چالیس دن گزر گئے ہیں آج بھی ہمیں یہ یقین نہیں ہو پا رہا ہے کہ میر حاصل خان بزنجو اب ہمارے درمیان نہیں میر حاصل خان بزنجو نیشنل پارٹی کا روح تھا۔

اور آج ہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری وجود روح کے بغیر ہے آج بلوچستان جن آگ کے شعلوں میں ہے ایسی صورتحال میں بلوچستان کو میر حاصل خان بزنجو جیسے جمہوری سیاست دان کی بڑی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو شاید ہم میں سے کوئی بھی پورا نہ کر سکے اگر بلوچستان کو موجودہ آگ کے شعلوں سے نکالنا ہے تو انتہاء پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو حکومت کو بھی اور ہم سب کو بھی فکر حاصل بزنجو سے استعفادہ کرنا ہو گا۔

تعزیتی جلسہ سے نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹر میر طاہر بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا قدرت کا قانون ہے کہ ہر انسان کو پیدا ہونے کے بعد فنا ہونا ہوتا ہے مگر کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں انہیں زندہ رہنے والے کرداروں میں سے ایک کردار میں حاصل خان بزنجو کا تھا میر حاصل خان بزنجو کو ان کا کردار رہتی دنیا تک زندہ رکھے گا جب سینٹ میں عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے میر حاصل خان بزنجو کو اپنا مشترکہ و متفقہ امیدوار نامز کیا تو موجودہ وزیر اطلاعات شبلی فراز اور چیئرمین سینٹ ان سے ملنے آئے اور میر حاصل خان بزنجو کو دستبردار ہونے کا کہا۔

جس پر انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار ہوں حالات چائیے کچھ بھی ہو میں دستبردار نہیں ہو سکتابعد میں سینٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں غیر جمہوری قوتوں 65 اراکین کو پچاس تک لایا گیا اور اس کے بعد یقینا میر حاصل خان بزنجو کا ردعمل فطری تھا اور انہوں نے فطری ردعمل کا مظاہرہ کیا جس کے جواب میں ایک زمہ دار آفسر نے غیر زمہ دارانہ منفی ٹیوٹ کیا جس کے جواب میں میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ الیکشن میر ا حق ہے اور میں کسی صورت اس حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا میر طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ طاقت ور حلقے یہ کہتے ہیں کہ 18 ویں ترمیم ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔

پر میرا ان سے سوال ہے کہ وہ کس طرح صوبوں کو خوش رکھ سکتے ہیں وہ کس طرح بلوچ،پشتون،سندھی کو حقوق دئیے بغیر یکجا رک سکتے ہے؟میر طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اپنی سیاست کا قبلہ درست نہیں کرینگے تب تک ملک میں ہونے والے آل پارٹیز کانفرنسیز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا مرحوم میر حاصل خان بزنجو کے فرزند میر شاہ وس بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب حاصل خان زندہ تھے تو تنقید کا شکار تھے ان کی سیاست جمہوری جدو جہد پر مضمر تھا۔

انہوں نے سیاست اقتدار شہرت اور پیشے کے لئے نہیں بلکہ جمہوری،عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ و آئین کی بالادستی کے لئے تھی بیشک میر حاصل خان بزنجو کی سیاست کی بنیاد اس کے والد میر غوث بخش بزنجو تھی مگر ان کے استادوں میں سے سب سے بڑی استاد اس کی والدہ تھی جنہوں نے بابائے بلوچستان کے جیلوں میں جانے کے بعد میر حاصل خان بزنجو کی سیاسی تربیت کی میر حاصل خان بزنجو سوال کرنے،سوال اٹھانے اور باہمی مباحثہ و تنقید برائے تعمیر کو جمہوریت کا احسن قرار دیتے تھے آج میر حاصل خان بزنجو ہمارے درمیان ضرور نہیں مگر ان کی سوچ فلسفہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔

اور انہی سوچ کو آگے لیکر چلنے سے ہم وہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جن کا تعین میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو نے کیا تھا نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق صوبائی وزیر سردار محمد اسلم بزنجو نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام تھا جس کا دل بلوچستان کے عوام کے لئے دھڑکتا تھا ان کے انتقال سے بلوچستان ایک عظیم رہنماء سے محروم ہو گیا ہے۔

انہوں نے جلسہ عام میں ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرنے پر بلوچستان سندھ سمیت پورے پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عمل کو میر حاصل خان بزنجو اور بزنجو خاندان سے عوام کی محبت قرار دی دریں اثناء نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر میر عبدالکبیر محمد شہی میر حاصل خان بزنجو کے چہلم کے موقع پر منعقدہ تعذیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میر حاصل خان بزنجو کو ان کی جمہوری سیاسی جدو جہد پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو نہ صرف ایک جمہوریت پسند سیاست دان تھے۔

بلکہ آمریت کے خلاف ان کی جدو جہد،آئین کو یرغمال بنانے،آئین کو پاوں تلے روندنے والی قوتوں کے خلاف بھی ان کی جدو جہد نا قابل فراموش ہے،جس ریاست کے ہم باسی ہیں اس ریاست نے اہل بلوچستان پر ظلم و زیادتی میں کوئی کمی نہیں کی ان ظلم و زیادتیوں کے خلاف بھی حاصل خان نے جدو جہد کی تربت میں بلوچ نوجوان حیات بلوچ کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس شہادت کے خلاف بھی حاصل نے آواز بلند کی ریاست جسے ماں کہا جاتا ہے مگر افسوس یہاں ریاست اپنے بچوں کو کھا رہی ہے اس ریاستی عمل کے خلاف بھی حاصل خان بر سر پیکار تھے ہم ریاستی اختیار داروں کو کہنا چاہتے ہے کہ اگر و ہ ریاست کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

تو فلسفہ بزنجو کو اپنائیں دیکھیں کہ ریاست اور عوام کے درمیان جو دریاں ہیں وہ کیسے ختم ہو جاتے ہیں ریاست کو اب عوام کا استحصال ختم کرنا ہو گا قلات سے نکلنے والی گیس پر ہم خوش نہیں کیونکہ یہی وسائل بلوچستان کے نوجوانوں کا قاتل بنے ہیں قلات کے گیس سے ملک کے صنعت کار خوش ہو کیونکہ یہ گیس انہیں سپلائی کی جائے گی بلوچستان عوام یوں دیکھتی رہی گی۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹر کہدہ محمد اکرم دشتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو نے اپنی زندگی بلوچ قوم اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کی حصول کی جدو جہد کے لئے صرف کر رکھا تھا اور عملی طور پر اس نے عوام کے حقوق کے لئے جدو جہد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بلوچستان کا حقیقی لیڈر اور ان کی جماعت نیشنل پارٹی بلوچستان کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے۔

جو نقصان ان کے انتقال سے بلوچ قوم اور نیشنل پارٹی کو ہوئی ہے اس نقصان کا ازالہ صرف اس بات سے ممکن ہے کہ اس کی جدو جہد اور فلسفہ کو اپنا کر آگے بڑھا جائے سینیٹ کے چیرمین شب کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کی جانب سے انہیں نامزد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میر حاصل خان بزنجو سینٹ میں سب سے معتبر سیاست دان تھے اور وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والے عناصر اور جمہوریت و آئین کو یرغمال بنا کر ملک کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے والوں قوتوں کے خلاف تھا۔

نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر میر عبدالخالق بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو کے انتقال سے ملک و قوم یقینی طور پر ایک اعظم رہنماء کی قیادت سے محروم ہو گئے میر صاحب کے انتقال سے بلوچ قوم اور بلوچستان کے عوام کو جو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کا تلافی کرنا شاید ممکن نہیں ہاں اگر اس کے فلسفہ کو عمل کیا جائے تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ نے تعزیتی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے میر حاصل خان بزنجو کو ان کی سیاسی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو غریب نادر مزدور دھکان کا لیڈر تھا۔

ان کی جدو جہد سیاسی عبارت پر مشتمل تھا میر حاصل خان بزنجو نے ہمیشہ سیاسی قوتوں کو یکجاں کرنے،جمہوریت کی بالا دستی اور ملک کے استحکام کے لئے جدو جہد کی ان کے انتقال سے بلوچستان کے عوام کو جو نقصان پہنچا ہے اس نقصان کو پورا کرنا اب بلوچ نوجوانوں کی زمہ داری ہے میر حاصل خان بزنجو کی آواز بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے توانا تھی اس توانا آواز کا مر جاجانا عظیم نقصان ہے بی ایس او کے کارکنان اس عظیم توانا آواز کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و سابق چیئرمین بی ایس او اسلم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو حقیقی طور پر میر ء جمہوریت تھے۔

اور ان کی جمہوری سیاسی سوچ نے اسے نہ صرف نیشنل پارٹی بلکہ بلوچستان کے ہر طبقہ کا لیڈر بنا دیا تھا میر حاصل خان بزنجو واحد لیڈر تھے جنہوں نے بلوچستان کی آواز اسلام آباد تک پہنچایا میر حاصل خان بزنجو کے انتقال سے جہاں بلوچ قوم بلوچستان کے عوام کو نقصان پہنچا ہے وہاں وفاق کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اگر بی این ایم اور بی این ڈی پی کا انضمام2005 ء کے بجائے 1986 ء میں ہوتا تو حاصل خان بزنجو کی قیادت میں بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے نیشنل پارٹی کے مرکزی خواتین سیکرٹری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرحاصل خان بزنجو بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔

صاف گو خوش اخلاف انسان تھے جمہوری جدو جہد میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ان کے انتقال سے ملک و قوم ایک عظیم رہنماء سے محروم ہوگئے بابائے بلوچستان نے اس ملک کو قوم کو آئین دی اور میر حاصل خان بزنجو اس آئین کا پاسبان بن گیا ملک میں حقیقی جمہوریت کی نفاذ کے لئے ہونے والی جدو جہد میں میر حاصل خان بزنجو نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری و سابق چیئرمین بی ایس او خیرجان بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو ایک اصول پسند اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے انسان تھے۔

میر حاصل خان بزنجو بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی سیاست کا تسلسل تھا چند الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کرنا یقینی طور پر نا ممکن ہے کیونکہ جمہوری جدو جہد کے لئے ان کی قربانیاں نا قابل فراموش تھے نال جیسے پسماندہ علاقہ سے میر صاحب جیسے عظیم لیڈر کا پیدا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جھالاوان بلوچستان کو سیاسی لیڈر پیدا کرکے دینے والی سر زمین ہے میر حاصل خان بزنجو نے ہمیشہ بندوق سے نفرت کی اور ہمیشہ جمہوری جدو جہد کی سفر پر یقین رکھا۔

انہوں نے نوجوانوں کو جزباتی نعرہ دینے کے بجائے سیاسی سوچ دیا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کی سیاسی سوچ حقیقت پر مبنی تھی میر بزنجو نے بلوچ کی سیاست کی مگر کبھی پنجابی پشتون یا دیگر اقوام کے خلاف بات نہیں کی انہوں نے نیشنل پارٹی کو بلوچستان سے پنجاب تک پہنچایا سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والے دلیر سیاست دان تھے ایک حوالدار کے کہنے پر بعض سیاست اسلام آباد پہنچ کر اقتدار کا حصہ بن گئے۔

مگر انہیں پھر بھی ہاتھ میں کچھ نہیں آیا نیشنل پارٹی کے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی فدا حسین دشتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو بلوچستان اور اسلام آباد میں برج کا کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے حقوق کی حصول چاہتے تھے مگر افسوس سینٹ کے انتخابات میں بزور طاقت انہیں عوام کی ملک کی نمائندگی کرنے سے روکھا گیا جس کا نقصان آنے والے اوقات میں ضروری ہو گا۔

سابق ایم پی اے و نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء حاجی اسلام بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو ایک عظیم رہنماء تھے ان کے انتقال سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جب بلوچستان کے لوگ آگ اور خون کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس وقت نیشنل پارٹی کی حکومت اور میر حاصل خان بزنجو کی قیادت نے بہترین حکمت عملی کے زریعے بلوچستان کے حالات کو درست سمت دی اور آج لوگ پر امن زندگی گزار رہے ہیں اور اس امن کا کریڈٹ میر حاصل خان بزنجو اور نیشنل پارٹی کو جاتا ہے سینٹ میں بھی اگر بلوچستان کی آواز گھونجی ہے۔

تو اس کا سہرا بھی میر حاصل خان بزنجو کو جاتا ہے نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری عبدالرسول بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا میر حاصل خان بزنجو ایک تحریک کا نام تھا جو اپنی جدو جہد کی وجہ سے خود کو پورے تاریخ میں امر کر دیا بی ایس او کے سابق مرکزی چیئرمین و نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء منصور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل بزنجو نے بلوچستان کے عوام کو سیاسی شعور دیا،وہ میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی جدو جہد کا تسلسل تھا اس تسلسل کو آگے بڑھانا ہم سب کی زمہ داری ہے میرا صاحب کو سوچ و فکر آج بھی ہمارے درمیان ہے۔

اور یہی سوچ ہماری خوابوں کلا تعمیر ہو گا ڈاکٹر شمع اسحاق وومن سیکرٹری نیشنل پارٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل خان کی سیاسی و جمہوری جدو جہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے انہوں نے بلوچ قومی جہد کی تحریک کو پورے بلوچستان میں روشن کرتے ہوئے اسلام آباد میں بلوچستان کی آواز بن گئی میر حاصل خان بزنجو کے سیاست کا ورث بلوچستان کے نوجوان ہے اور ان کا فلسفہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔

نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر عبدالحمید ایڈووکیٹ نے کہا کہ میر حاصل خان بزنجو ایک جمہوری پسند سیاست دان تھے ان کے انتقال سے بلوچستان بلوچ قوم اور پاکستان ایک اعظم لیڈر کی قیادت سے محروم ہو گئی نیشنل پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے اور عوام کو چائیے کہ وہ اس طرح کی جمہوری پارٹی کی حمایت کریں جس کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں کچھ لوگ عوام کو خوشنماء نعروں سے ورغلا کر اپنی مقاصد حاصل کرنا چاہتے رہے ہیں۔

مگر میر حاصل خان اور نیشنل پارٹی ہمیشہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہے عوام ایسے خوشنماء نعرہ لگانے والوں سے ہوشیار رہیں اور میر حاصل خان کے طے کردہ جد و جہد کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں نیشنل پارٹی قلات ریجن کے سیکرٹری امین دوست بلوچ،کوئٹہ سے صدر حاجی عطاء محمد بنگلزئی، سابق مئیر خضدار میر عبدالرحیم کرد،ضلعی جنرل سیکرٹری میر اشرف علی مینگل،تحصیل خضدار کے صدر عبدالواہاب غلامانی، سمیت دیگر نے بھی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے۔

میر حاصل خان بزنجو کی سیاسی سوچ و فکر پر روشنی ڈالی تعزیتی جلسہ عام میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض میر ولید بزنجو اور دیدگ بزنجو نے مشترکہ طور پر انجام دی جبکہ حافظ محمد موسیٰ نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ میر حاصل خان بزنجو کے ایصال ثواب کے لئے اجتماعی دعا بھی کروائی۔