|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2020

کسی مفکر کا قول ہے کہ “اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی یعنی انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے”۔ مطلب یہ ہے کہ کتب بینی سے ہمیں ٹھوس دلائل ملتے ہیں اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ صاحب مطالعہ شخص کی باتوں میں جان ہوتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سنجیدہ ہوکر مدلل انداز میں لب کشائی کر تاہے۔ عصر حاضر میں ترقی کا اصل سبب وہ مکتوب علم وہنر ہے، جو کتابوں کی شکل میں ایک عظیم خزینے کی مانند موجود ہے۔ اگر یہ علم ایسا محفوظ نہ ہوتا تو آج کے یہ ترقی یافتہ ممالک سریا نہیں بلکہ تحت الثریٰ پر ہو تے۔

کتب بینی نے انسان کی معلومات میں رفتہ رفتہ اس قدر اضافہ کردیاہے کہ آج کے انسان کے لئے کوئی کام ناممکن نہیں رہا۔ غرض کتب بینی سے موت وحیات اور دنیا و آخرت کی تمام اشیاء کا علم حاصل ہوتاہے اور یہی ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے۔حکیم ابو نصر الفارابی اپنے ذوق مطالعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”تیل کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا تھا“۔ کتاب سے اتناگہراتعلق ہی تھا جس نے ان کے نام کو حیات جاودانی بخشی۔ امام رازی کے مطالعے کا یہ عالم تھا کہ آس پاس کتابوں کاڈھیر لگاہوتا، وہ اس کے مطالعے میں ایسے مستغرق ہوتے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتے، بیوی اْن کی اس عادت سے سخت پیچ و تاب کھاتی، ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، ”اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں“۔

شیلے انگریزی زبان کا مشہور شاعر کہتا ہے ”مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لیے اور اس کی ترقی کیلیے بہت ضروری ہے“۔ والٹیئر کہتا ہے کہ”وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں“۔ حقیقت بھی ہے کہ حکمران صرف حکومت کی ظاہری شکل ہے جب کہ حکمرانی اصل میں مصنِّف اور مصنّف کرتاہے۔ بات کتاب کی چلتی ہے۔ حکمران ایک مامور کی مانند حکم کی تعمیل کرتاہے۔رینے ڈیس کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے کہ، ”تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کی بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے“۔

کتاب دوستی اور مطالعہ ایک ایسا بہترین شوق اور جنون ہے کہ جس کے بدلے پوری دنیا کی سلطنت بھی ہیچ ہے۔ کتاب ایک ایسا وفادار دوست ہے جو اپنے وفاداری کاثبوت دیتے ہوئے آپ کو فرش سے عرش اور تحت الثریٰ سے فوق العْلٰی اور خاک سے افلاک تک پہنچادیتا ہے۔ علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہِ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لیے بھی مشعلِ راہ کا کام دیتا ہے۔ یہ ہر صاحبِ استعداد شخص کا کام ہے۔ یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق، محنت اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہوں، وہ اِس عمل کو پروان چڑھا کر بحارِ علوم سے گوہرِ نایاب چھن کر بانٹ سکتا ہے۔

کتب بینی کے شائقین ہر قسم کی اذیت وتکلیف برداشت کرسکتے ہیں مگر دوری کتب ان کیلیے قابلِ برداشت نہیں۔ استاد محترم حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ” میں دورانِ طالب علمی دوپہر کو اسباق ختم ہونے کے بعد بس سے لٹک کر صدر لائبریری جاتا تھا وہاں سے واپس ظہر کے اسباق پڑھنے پہنچ جاتا تھا”۔ انہوں نے عصر کی آذان سے جماعت تک یہ پندرہ منٹ صرف ایک کتاب لکھنے کیلیے مختص کیا، چند عرصے میں کتاب مکمل کرکے کتب خانوں کی زینت بن گئی۔
اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب، باوقار، دور بین اور معتمد بناتا ہے۔

اس کی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے۔ کتاب ہر مشکل گھڑی میں آپ کیلیے راہ ہموار کرتی ہے۔ آپ پر علم کے نئے دریچے کھول دیتاہے۔ جس معاشرے میں علم کے دریچے بند ہوجائیں وہاں صرف جہالت، اندھیرا اور پسماندگی چھاجاتی ہے۔کتاب ایک خاموش ساتھی ہے۔ مگر اس خاموش گلستان میں رنگ برنگے پھول روح کو تازگی بخشنے والی مختلف قسم کی خوشبوئیں اور دماغ کو سرور فراہم کرنے والی معطر فضا، روح وقلب کو تسکین پہنچانے والی تروتازہ ہواؤں کے علاوہ اس خاموش گلستان میں ہزاروں بلبل چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ کتاب کی دوستی اکتاہٹ سے پاک ہے۔

جب کہ یہ ایسا دوست ہے جو زندگی بھر روٹھ کر جاتا نہیں۔ کتاب ہی وہ شے ہے جوبغیر خرچے بغیر تھکاوٹ کے پوری دنیا کی سیر کراتی ہے۔ اس پر بس نہیں آپ جب بھی چاہو اور جہاں چاہو یہ کتاب آپ کی ملاقات اکابرین مفکرین سائنس دان غرض تاریخ کے بڑے بڑے عباقرہ سے کراتی ہے۔ وہ بھی خاموش ملاقات کہ آپ ان کی پند ونصائح سے مستفید ہوں۔ یہ ہے کتاب جو آپ کیلیے ہرمشکل آسان کردے۔ آپ کو تمام تر پستیوں سے اٹھاکر بلندیوں کے آخری مراتب تک پہنچائیں۔ اگر آپ میں ہمت ہوئی ان کے ساتھ دوستی نبھانے کی۔ ان کی افرادی قوت بڑھاکر کوئی کتاب لکھ ڈالی تو آپ بھی مرنے کے بعد لوگوں میں زندہ رہیں گے۔