ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتی جارہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کا پارہ مزیداوپر جانے کا امکان ہے کیونکہ ایک طرف اپوزیشن نے کمر کس لی ہے کہ وہ اتحاد کے ذریعے اپنے احتجاجی تحریک کو آگے بڑھائینگے ملک بھر میں عوامی اجتماعات منعقد کئے جائینگے جس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنی شرکت کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جوکہ مولانافضل الرحمان کے گزشتہ دھرنے اور احتجاج سے مختلف دکھائی دے گا مگر اس احتجاجی تحریک تک حکومت کوئی دباؤ نہیں لے رہی،اس کی جانب سے یہ بات کی جارہی ہے کہ اپوزیشن اگر عوامی مسائل پر باہر نکل رہی ہے۔
تو ان کے ساتھ بات چیت کی جائے گی مگر کسی کو رعایت اور این آراو نہیں دیاجائے گا۔بات واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اپنے اوپر لگائے گئے مقدمات کو سیاسی انتقام سے تشبیہ دے رہے ہیں اور اس احتجاجی تحریک کا براہ راست کا تعلق بھی اسی سے ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے انتہائی سخت گیر مؤقف سامنے آرہا ہے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی جو قیادت ملک میں موجود ہے وہ مریم نواز کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کا نوازشریف کے حالیہ خطاب پر کہنا تھا کہ اس میں میاں نوازشریف نے کوئی ایسی بات نہیں کی ہے۔
جس سے ادارے متنازعہ ہوں بلکہ انہوں نے ملک میں آئین وجمہوریت کی بالادستی کے حوالے سے بات کی ہے اور اس پر سب متفق ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہو اور انہوں نے یہ بھی کہاکہ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ مؤقف اور احتجاجی تحریک کا بنیادی مقصدبھی یہی ہے جبکہ خواجہ آصف کی جانب سے زرداری پر بھروسہ نہ کرنے پر پیپلزپارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں آگے بڑھ رہی ہیں کیونکہ پہلے سب نے سمجھوتہ کرکے حکومت کی تھی کہ آگے چل کر معاملات بہتر ہونگے مگر جو نتائج چاہتے تھے اس کے برعکس ہی سب کچھ ہو ا۔
میاں نوازشریف کے آج کے گلے شکوہ تو عوام کے سامنے ہیں جس پر وہ اب بات کررہے ہیں مگراپنے وزارت عظمیٰ کے دوران مشاہداللہ خان اورسینیٹر پرویز رشید کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا تویہ سمجھوتہ پھر کیونکر کیا گیا،اگر جمہوریت، قانون اورپارلیمنٹ کی بالادستی نوازشریف کو اتنی عزیز تھی تو اس وقت اپنے کئے گئے باتوں اور فیصلوں پر قائم رہتے مگر اس پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ہم نے سمجھوتہ اس لئے کیا تھا کہ آگے چل کر ماحول سازگار ہوسکے، اداروں اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوسکے مگر ایسا نہیں ہوا،اس لئے ماضی کے تجربات کو مدِ نظررکھتے ہوئے۔
اب اپوزیشن جماعتوں کا مقصد ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی سمیت شفاف انتخابات ہیں تاکہ حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے فیصلوں میں آزاد ہوسکے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر شبلی فراز نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت صرف عوامی مسائل پر ہوسکتی ہے، اگر وہ سڑکوں پر اس بنیاد پر نکل رہے ہیں کہ ان کے قائدین کے کرپشن پر انہیں رعایت دی جائے تو اس پر ہماری حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ جو بھی کرپشن میں ملوث ہوگا اس کے خلاف مقدمات چلیں گے جبکہ نوازشریف کو وطن واپس لانے کیلئے تمام تر قانونی پہلوؤں کاجائزہ لیاجارہا ہے کہ کس طرح انہیں وطن واپس لایاجاسکے۔
کیونکہ وہ اس وقت مفرور ہیں اخلاقی طور پر انہیں خود آنا چاہئے تھا مگر اب وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے باہر بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہیں۔ بہرحال سیاسی حالات جس رخ پر جارہے ہیں اس سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں پر گرفتاریاں ہونگی وہیں پر احتجاجی تحریک بھی چلے گی مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگراپوزیشن کے بڑے لیڈران کی گرفتاری اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ایم پی ایز کی وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے ان کے ساتھ بیٹھ جانے کے بعد احتجاجی تحریک زور دار ثابت ہوگی۔
یقینا نہیں مگر اس کا انحصار اپوزیشن جماعتوں کی عوامی مہم اور ان کو اعتماد میں لیتے ہوئے چلنے پر ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ آئندہ چند روزملک کی سیاست میں انتہائی اہم ہونگے، حکومت اوراپوزیشن کے درمیان کشیدگی بڑھے گی، اب کتنا بڑا ہنگامہ برپا ہوگا یہ کہا نہیں جاسکتا مگر اس وقت سب کی نظریں اپوزیشن کے احتجاج اور حکومت کی حکمت عملی پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید درمیان کا کوئی راستہ نکل آئے جوکہ نوازشریف کی تقاریر سے نہیں لگتا کہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہوں گے مگر احتجاجی تحریک سے بھی کوئی خاص نتیجہ برآمدہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ کوئٹہ کا جلسہ پہلا ٹیسٹ ہوگا کہ اپوزیشن قائدین کی آمد اور اس میں لوگوں کی شرکت سے تحریک کی قوت کا اندازہ لگایاجائے گا۔