|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں،بیوروکریٹس اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے کہا ہے کہ صوبائی خود مختاری کے حل کے لئے آئین پر عملدرآمد ناگزیر ہے ہم نے اپنے دور میں صوبے میں لائی جانے والی تمام سکیمات بارے موثر اقدامات کئے اٹھارویں ترمیم ہماری جائیداد ہے اس کو لینے کے لئے طاقت کی ضرورت ہے۔

اٹھارویں ترمیم نے صوبے کو مستحکم کرنے کی بنیاد فراہم کی اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل کے درست سمت کے تعین اور آمدنی کے صحیح استعمال کیلئے ذہن سازی قانون سازی معاشرتی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،جمعیت علما اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد، پاکستان مسلم لیگ بلوچستان کے صدر شیخ جعفر خان مندوخیل، رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ، سیکرٹری خزانہ نوالحق بلوچ سیکرٹری صحت دوستین جمالدینی،عبدالمتین اخونزادہ،بلوچستان سے این ایف سی کے غیر سرکاری رکن قیصر بنگالی۔

سابق نگران وزیر اعلی بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی، سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان،پروفیسر عبدالسلام پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ زوالفقار اورصدر پریس کلب رضاالرحمان، ڈاکٹر امجد ثاقب و دیگر نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل کے درست سمت کے تعین اور آمدنی کے صحیح استعمال کیلئے ذہن سازی قانون سازی معاشرتی بیداری پیدا کرنے کیلئے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

مقررین نے کہا کہ صوبائی خود مختاری کے حل کے لئے آئین پر عملدرآمد ناگزیر ہے ہم نے اپنے دور میں صوبے میں لائی جانے والی تمام سکیمات بارے موثر اقدامات کئے اٹھارویں ترمیم ہماری جائیداد ہے اس کو لینے کے لئے طاقت کی ضرورت ہے وفاق کی جانب سے ملنے والے پیسوں کو استعمال کرنے کی ضرورت رہی ہم نے سکیمات دیں جس پر کام کرائے اسلام آباد شروع سے ہمارے ساتھ ناانصافی کرتا چلا آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایوب خان نے صوبوں کو نظرانداز کیا محرومیوں کا شکار ہونے والے آج مزاحمت کا راستہ اختیار کرہے ہیں اٹھارویں ترمیم سے قبل پیسہ ٹینکوں میں رکھا جانے لگا اس رقم کا گننے کیلئے بنکوں سے مشین منگونی پڑے وسائل ہڑب کرنے والوں کا احستاب نہ ہوسکا سی پیک ہمارے نام پر آیا لیکن دو رویہ سڑکیں تک نہ بن سکیں اٹھارویں ترمیم پر کیوں عمل نہیں ہوسکا۔مقررین نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو بجٹ کے ساتھ لنک کرنے کی کوشش کی گئی جس ملک میں رہتے ہیں وہاں آئین رہن سہن کے طریقوں کا تعین کرتاہے قانون پر عمل درآمد نہیں ہورہا یہ ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔

بلوچستان اسلئے بیمار صوبہ بن گیا ہے کہ آئین پر عمل درآمد نہیں اٹھارویں ترمیم میں بلوچستان کے لوگوں کا خون شامل ہے دو ہزار چار کی باون رکنی کیمٹی نے اٹھارویں ترمیم کے بیج بوئے تھے بلوچستان میں چلنے والی سیاسی تحریکوں نے یہاں کے وسائل کی اہمیت کو اجاگر کیا بلوچستان کو بجلی بنانے اور صنعت لگانے کا اختیار ملا یے اٹھارویں ترمیم نے بہت سارے اختیارات دئے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسلئے آگے ہیں کہ انہوں نے حکمت عملی مرتب کیترقی کے لحاظ سے بلوچستان اتھوپیا کے برابر ہے بلوچستان کا ترقیاتی ایجنڈے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

اور یہ کام صرف سیاسی قیادت نہیں کرسکتی بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ کا 82 فیصد بجٹ سڑکوں پر ہے۔عدالت نے واضع کیا ہے کہ غلط کاموں سے افسران انکار کریں۔بلوچستان کی شرح آبادی کی رفتار شرح آمدنی سے زیادہ ہے غلط منصوبہ بندی معاشرے کا قتل ہے سول سوسائٹی بھی مزاحمت کرے۔ انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم میں مزید ترامیم لانے والے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔

ترمیم کے بعد جو رقم صوبوں کو ملی یہ تاثر ہے کہ یہ کرپشن کی نظر ہوجائے گا۔ پی ایس ڈی پی میں اسکمیات نفرادی حوالے سے بنے لگے بلوچستان میں میگا کرپشن کیس کے اسکنڈل سامنے آنے کے بعد مزید مشکلات پیدا ہوئی بلوچستان میں ترجیح لائیو اسٹاک،ماہی گیری اور دیگر پیداواری شعبوں کو فوکس کرنا ہوگا مقررین نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتے ترامیم جو ہوئی تعلیم،صحت اور دیگر شعبوں کے حوالے سے کی گئی لیکن تعلیم سب سے اہم ہے۔

اگر لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہے تو بحران کے مواقع کم ہی پیدا ہوتے ہیں ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اور بہتر نظام حکومت کی تشکیل سے کی جائے کہ ترقی میں ہر شخص کو حصہ ڈالنے کا موقع مل سکے۔جمہوریت کی کامیابی جواب دہی کے عمل میں ہے ہمارے ہاں حکومت کو لوگ اب بھی اپنا نہیں سمجھتے فرائض کی بجائے ہر ایک حق کا طلب گار نظر آتا ہے صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ امن وامان کو بہتر بنائے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کا ترقی میں براہ راست تعلق نہیں قانون میں کچھ ترامیم ہوئیں ہے سیاسی حکومتوں نے ماضی میں کئے جانے والے سمجھوتوں کو از سر نو تعین کیا معاشی ترقی اس وقت ہوتی ہے۔

جب قدرتی وسائل انسانی وسائل اور پالسی سازی مناسب ہونا چاہیے اٹھارویں ترمیم میں این ایف سی کے فیصلے ترمیم کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی فیصلوں کی وجہ سے ہوا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ثمرات نہیں ملیں گے بنیادی طور پر 15 وزارتوں کو صوبوں کے حوالے کیا گیا بعض وزاتیں اسی تھیں جن کو وفاق میں ضرورت ہی تھی۔البتہ صدر اور گورنرز کے اختیارات محدود ہوئے ہیں۔مقررین کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کا این ایف سی ایوارڈ سے موازنہ کیا جائے۔

اگر این ایف سی نہ آتا تو بلوچستان کو جو وسائل مل رہے ہیں وہ آج نہ ہوتے بلوچستان کا بجٹ اٹھارہ ارب کا بجٹ تھا لیکن اب صوتحال مختلف ہے دو ہزار نو دس میں ترقیاتی بجٹ صرف دو ارب تھا اج صرف تعلیم کا بجٹ بارہ ہزار ملین یے البتہ اسی پچاس کروڑ روپے صوبے کا پہلے اپنے وسائل تھے اب 25 ارب ہوچکا ہے۔سوال یہ نہیں کہ رقم کتنی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ پالیسی کیا ہے بطور معاشرہ ہماری ترجیحات درست نہیں۔

بلوچستان میں اب بھی دس لاکھ بچے اسکول سے باھر ہیں جو بڑا ہوکر تعلیم یا ہنر کے زیور سے محروم ہو گا بلوچستان میں حکومت کے متبادل روزگار کا رجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے بلوچستان کو اپنی رقم حکمت عملی سے خرچ کرنا ہوگا آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔