|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2020

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق ہفتہ کے روز پاکستان میں کورونا وائرس کے مزید 553 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعدکورونا کے فعال کیسز کی تعداد 8 ہزار 884 ہوگئی ہے۔این سی اوسی کے مطابق ملک بھر میں اب تک کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار 984 ہوچکی ہے جبکہ 8 مزید ہلاکتوں کے بعد کورونا سے مجموعی اموات کی تعداد 6 ہزار 507 ہوگئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ان 24گھنٹوں کے دوران ہونے والی اموات میں سے 5 کا تعلق سندھ سے تھا جبکہ پنجاب،اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں ایک، ایک مریض جاں بحق ہوا ہے۔

دوسری جانب کورونا کے حوالے سے ضابطہ کار کی خلاف ورزیوں پر کراچی میں مزید 2 شادی ہالز اور 41 ریسٹورنٹس کو سیل کردیاگیا ہے۔شہر میں 3 روز کے دوران 9 شادی ہالز اور 159 ریسٹورنٹس سیل کیے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ انتظامیہ کی جانب سے ضابطہ کار کی خلاف ورزی پر 7 دکانوں، فیکٹریوں اور میڈیکل اسٹورز کو بھی سیل کیا جاچکا ہے جبکہ ایک لاکھ 30 ہزارروپے جرمانہ بھی عائد کیاجاچکا ہے۔دوسری جانب بلوچستان میں کورونا وائرس کے نئے کیسز رپورٹ تو ہورہے ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ اموات مزید نہیں ہوئی ہیں۔

مگر یہ کہنا کہ ایس اوپیز پر عملدرآمد کی وجہ سے بلوچستان میں کیسز اور اموات کی شرح کم ہے تو یہ غلط ہے چونکہ معمولات زندگی اسی طرح رواں دواں ہے البتہ چند تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہونے کی وجہ سے انہیں بند کردیا گیا ہے لیکن صوبے میں مجموعی طور پر صورتحال ملک کے دیگر حصوں کی نسبت بہتر ہے۔ ملک بھر میں کورونا وائرس سے اموات اور مزید کیسز رپورٹ ہونے کے بعد گمان کیاجارہا ہے کہ پھر سے لاک ڈاؤن کی طرف حکومتوں کو جانا پڑے گا مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ سب سے اہم مسئلہ ایس اوپیز پر عملدرآمد کا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن سے براہ راست ملک کا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے۔

جو اس کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا لہٰذا اس حوالے سے وفاقی وصوبائی حکومتوں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ کورونا وائرس کو کنٹرول بھی کیاجائے اور عوام بھی متاثر نہ ہوں جس کیلئے سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پھر شہریوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب جس طرح سے کراچی کے مختلف علاقوں میں لاک ڈاؤن کافیصلہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مختلف ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شادی ہالز کو سیل کیا گیا ہے یقینا اس سے ان کے کاروبار پر اثر پڑے گا اسی طرح پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کی جانب سے اول روز سے احتجاج دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ان کو اس سے نقصان اٹھاناپڑرہا ہے۔

تو ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی معاشی صورتحال پر برے اثرات مرتب نہ ہوں۔ حالیہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ اس صورتحا ل کو برداشت نہیں کرسکتے پہلے سے ہی بعض سیکٹرزکو لاک ڈاؤن کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا، مالی نقصان کی وجہ سے لوگوں کو روزگار سے نکالاجاچکا ہے جوکہ سنگین صورتحال کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان کا دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں کیاجاسکتا امریکہ سمیت مغرب اور خلیج کی معاشی صورتحال الگ ہے جبکہ پاکستان پہلے سے ہی معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے لہٰذا تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔

عوام کے وسیع ترمفاد میں فیصلہ کیاجائے کیونکہ لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر کوئی چیزاہم نہیں ہے مگر بیروزگاری، معاشی بدحالی بھی انسانی جانوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس لئے ایس اوپیز پر عملدرآمد کرایا جائے، انتظامیہ کو متحرک کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ کوروناایس اوپیز پر سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا مگر لاک ڈاؤن مسئلہ کا حل نہیں ہے۔