ملک میں سیاسی حالات پر تبصرہ زور شور سے جاری ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ پی ڈی ایم کے ہر اجلاس کے فیصلوں کو شہ سرخیوں کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جبکہ اس پر گھنٹوں بحث مباحثہ بھی کیاجارہا ہے، اسی طرح حکومت کے ہر ردعمل کو بھی اسی طرح سے ہی اجاگر کیاجارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کیا پلان کرنے جارہی ہے اور پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے کیا سوچ بچار کررہی ہے۔اسی طرح گرفتاریوں کا معاملہ بھی سیاسی افق پر ہے مگر اس تمام صورتحال میں عوامی مسائل بالکل نظرانداز ہیں جس کی واضح مثال حالیہ مہنگائی کی لہر ہے۔
سردی سے قبل ہی انڈوں کی قیمت کو پر لگ گئے، کراچی میں فی درجن انڈوں کی قیمت 170 روپے تک پہنچ گئی ہے۔شہر میں انڈوں کی فی درجن ہول سیل قیمت 150 روپے ہوگئی جبکہ ریٹیل سطح پرانڈے 160 روپے سے 170 روپے درجن تک فروخت ہورہے ہیں۔ ایک ماہ میں انڈوں کی فی درجن قیمت 30 روپے تک بڑھ گئی ہے۔دوسری جانب سندھ ایگ ڈیلرز ایسوسی ایشن نے مہنگی پولٹری فیڈ اور حکومتی ٹیکسوں کو انڈے مہنگے ہونے کی وجہ قرار دیاہے۔ ڈیلرز کے مطابق ڈیڑھ سال کے دوران فیڈ کی پچاس کلو کی بوری ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر اڑھائی ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
بہت سے ڈیلرز دیوالیہ ہوگئے اور75 فیصد فارمرزنے پولٹری فیڈ مہنگی ہونے پرکام ختم کردیا ہے۔دوسری جانب گزشتہ ہفتے وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ستمبر 2020 کے دوران مہنگائی میں 1.54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اعداد و شمار کے تحت ستمبر 2020 کے دوران مہنگائی میں 1.54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ستمبر 2020 میں ستمبر 2019 کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح 9.04 فیصد رہی۔رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر 2020 میں گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کی نسبت مہنگائی کی شرح 8.85 فیصد رہی۔ گزشتہ ایک ماہ میں ٹماٹر 44 فیصد، سبزیاں 30، چکن 18 اور پیاز 14 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ میں تازہ پھل 6 فیصد، چینی 1.82 فیصد اور بجلی کے نرخ 0.62 فیصد کم ہوئے۔ مہنگائی ملک میں عوام کا اصل مسئلہ ہے مگر مجال ہے کہ اس پر مفصل بحث کی جائے یا پھر یہ شہ سرخیوں میں دکھائی دے جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام شدید مسائل سے دوچار ہیں کیونکہ جہاں پر مہنگائی زیادہ ہوتی ہے وہاں پر بیروزگاری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلے سے ہی کورونا کی وجہ سے کافی لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ مختلف بحرانات کی وجہ سے کاروباری طبقہ دیوالیہ ہورہا ہے۔
اس سنگین صورتحال پر جہاں حکومت اوراپوزیشن کو مل بیٹھ کر پالیسی مرتب کرنی چاہئے تھی مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ خدارا اس طوفانی مہنگائی کو روکنے کیلئے حکومت اقدامات اٹھائے کیونکہ حکومت کا اصل مقابلہ اپوزیشن سے کم گڈ گورننس کے حوالے سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت اپنے اپوزیشن کے دور کے ان وعدوں کو ایک بار پھر یاد کرے کہ جس طرح سے لاکھوں گھر، روزگار، قرضوں سے نجات، بجلی وگیس سستی، مہنگائی کا مکمل خاتمہ، عام لوگوں کو مکمل ریلیف فراہم کرنا،ان مافیاز کیخلاف کریک ڈاؤن کرنا جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے عوام کا خون چوستے ہیں۔ بدقسمتی سے حالات اس کے انتہائی برعکس ہیں بہرحال حکومت کو اپوزیشن سے چیلنجز کم جبکہ مہنگائی سے زیادہ ہیں اگر حکومت نے اس سے نظریں چرائی تو یقینا عوام کا اعتماد کھوبیٹھے گی۔