|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2020

اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں بینکوں کی طرف سے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں نجی کاروبارکیلئے جاری مجموعی قرض کا ایک فیصد قرض دیا گیا جبکہ کمیٹی نے قرضوں کی غیرمنصفانہ تقسیم پرشدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے مرکزی بینک کو محرومی کے احساس کو ختم کرنے کیلئے آئندہ اجلاس میں سفارشات طلب کرلیں۔

منگل کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹرفاروق ایچ نائیک کی زیرصدارت اسلام آاد میں ہوا۔کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بتایا کہ بینکوں کی طرف سے چھوٹے صوبوں میں کم قرض دینے کا معاملہ مرکزی بینک کے زیرغور ہے،بینکوں کو تین سال سے معاملہ حل کرنے کیلئے ہدایت دے رہے ہیں۔ سینیٹر عزیزنے الزام عائد کیا کہ نجی بینکوں کے سیٹھ مالکان چھوٹے صوبوں میں نئے کاروباروں کیلئے قرض دینے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں ان صوبوں نے بڑی قربانیاں دیں مگراب ان صوبوں میں نئے کاروباری کیلئے بینکوں کے مالک سیٹھ قرض دینے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔انھوں نے کہا کہ بیس سال پہلے خیبرپختونخواہ کا مجموعی قرض میں دس فیصد حصہ تھا جوکم ہو کرصفراعشاریہ نوفیصد اوربلوچستان کیلئے صفر اعشاریہ تین فیصد پر آ گیا۔

انھوں نے کہا کہ پنجاب کے کاروباروں کواڑتالیس فیصد اسلام آباد چھ فیصد،سندھ کوسنتالیس فیصد قرض دیا جا رہا ہے کاروبار کیلئے سرمایہ نہ ملنے کے باعث ان صوبوں کے عوام کی اکثریت روزگارکیلئے بڑے شہروں میں جانے کیلئے مجبورہے۔چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے کاروباروں کے ساتھ تفریق اورغیرمنصفانہ سلوک ختم کرنے کیلئے مرکزی بینک آئندہ اجلاس میں سفارشات پیش کرے۔

سینیٹرمصدق ملک نے بتایا کہ بینک ان صوبوں سے سرمایہ اکھٹا کرکے دیگرصوبوں کوفراہم کررہے ہیں یہ نا انصافی ہے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں صوبوں میں بینکوں کے ڈیپازٹسز اورجاری قرضوں کی تفصیلات طلب کرلی ں۔کمیٹی نے چیئرمین سینٹ کی طرف سے نجی بینک کے ملازم کی بینک سے واجبات کی وصولی کی درخواست کوخلاف ضابطہ قراردیتے ہوئے مسترد کردیا۔