کوئٹہ: بلوچستان کا مسئلہ گولی سے نہیں مذاکرات سے حل ہوگا،مسلح تنظیموں سے مذاکرات کئے جائیں۔ ایک آمر مشرف نے بلوچستان میں جو آگ لگائی جس سے ہمارے ہزاروں نوجوان جل گئے، ہمارے بزرگ نواب اکبر خان بگٹی کے گھر پر پہلے حملہ کیاگیا پھر نواب اکبرخان نے پہاڑوں پر پناہ لی تو وہاں پر انہیں شہید کیا گیا،
آئین اجازت نہیں دیتا کہ ہمارے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے ان کی لاشوں کو سڑکوں اور جنگلوں میں پھینک دیاجائے،افغانستان،ایران اور بھارت کے ساتھ بہترتعلقات کے بغیرپاکستان میں معاشی استحکام نہیں آسکتا اس لئے جنگی فلاسفی کی بجائے انسانی ترقی کی فلاسفی کے مائنڈسیٹ کو اپنایاجائے۔
ان خیالات کااظہار نیشنل پارٹی کے صدرو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسہ سے خطاب کے دوران کیا۔ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ شہدائے کارساز سمیت مادرِ وطن کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان تمام شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں اور پی ڈی ایم کی مہمان نوازی پر بلاول بھٹو زرداری کا مشکور ہوں،
انہوں نے کہاکہ اپنے قائد میرحاصل بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جن کی کوششوں سے اپوزیشن جماعتیں اکٹھے ہوئے ہیں، میرحاصل بزنجو کی جدوجہد کی بنیاد ایک ایسا وفاق پر تھی جہاں پر پارلیمنٹ کی بالادستی ہو، انسان کی سربلندی ہو، قوموں اور طبقات کی برابری ہو،کسی کا استحصال نہ ہو،عدلیہ اور میڈیا آزاد ہوں مگر بدقسمتی سے اس ملک میں 72سالوں سے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ کا وژن چل رہا ہے
جو اس ملک کے بنیادی حقوق ماننے سے انکاری ہیں ہم کہتے ہیں یہ ملک کثیر القومی ریاست ہے، بلوچ، سندھی، پنجابی، پختون، سرائیکی کی حیثیت کو تسلیم کیاجائے لیکن وہ اس سے انکاری ہیں، اسی طرح پارلیمنٹ کی بالادستی سے بھی انکاری ہیں، وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کی بجائے بندوق کو سمجھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو ربڑاسٹمپ بنایاگیا ہے جبکہ میڈیا اور عدلیہ کو مقید بناکر رکھ دیا گیا ہے،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ ریاست اس طرح کے مائنڈ سیٹ سے نہیں چل سکتا۔
بلوچستان میں اب تک پانچ آپریشن کئے گئے ہیں، وزیرستان میں کیا کررہے ہیں،پختونخواہ صوبہ میں کیا کیا ہے، ایک آمر مشرف نے بلوچستان میں جو آگ لگائی جس میں ہمارے ہزاروں نوجوان جل گئے اور ہمارے بزرگ نواب اکبر خان بگٹی کے گھر پر پہلے حملہ کیاگیا پھر نواب اکبرخان نے پہاڑوں پر پناہ لی تو وہاں پر اس کو شہید کیا گیاآئین اجازت نہیں دیتا کہ ہمارے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے ان کی لاشوں کو سڑکوں اور جنگلوں میں پھینک دیاجائے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کا مسئلہ گولی سے حل کرنا چاہتے ہیں مگر گولیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں
بلکہ نفرتیں اور دوریاں بڑھتی ہیں، اس لئے بلوچستان کے مسلح تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں جس مذاکرات کا سلسلہ پچھلی حکومت نے شروع کیا تھا اسی کو آگے لیکر جائیں، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ پچھلے دور حکومت میں بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کیلئے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں کوٹہ مختص تھااور ان کے اخراجات بھی پنجاب حکومت اٹھارہی تھی مگر موجودہ سلیکٹڈ حکومت نے تمام بلوچ اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹیاں سے نکال دیا ہے جوکہ باعث شرم ہے، اگر حکومت نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو طلباء کے لانگ مارچ کو مزید تقویت دینگے،
ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ یہ ایک پرانی سازش ہے کہ سندھ کو تقسیم کیاجائے کیا مگر ہم سندھ کی تقسیم کو نہیں مانتے سندھ سندھیوں کی ہزاروں سالہ پرانی وطن ہے،ایک سازش کے تحت بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضہ کیاجارہا ہے اور سندھ وبلوچستان کے ساحلی پٹی کو جدا کرکے وفاق کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں ہم اس عمل کو نہیں مانتے کیونکہ اس کا حق ہمیں آئین پاکستان نے دیا ہے،یہ سازش ضیاء الحق سے لیکر مشرف دور تک ہوتا رہا اور اب دونمبر جعلی آرڈیننس جاری کیا گیاہے
جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کرتے ہم تمام ساتھیوں سے ملکر ایسی تحریک چلائینگے کہ ایوب خان دور کی تحریک کوبھی حکمران بھول جائینگے ہم اپنی ساحلی پٹی کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق کو نہیں دینگے۔انہوں نے کہاکہ سیندک پروجیکٹ سے 48فیصدوفاق لے رہی ہے جبکہ دو فیصد بلوچستان کو دیاجارہا ہے سوئی گیس جس نے پورے ملک کو سستی انرجی دی مگر ڈیرہ بگٹی آج تک سوئی گیس سے محروم ہے، بلوچستان کا صرف ایک ضلع ڈیرہ بگٹی کھربوں روپے منافع دے رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ سب سے زیادہ پسماندہ ضلع ہے
اسی سے اندازہ لگایاجائے کہ ہمارے ساتھ کیا برتاؤ کیاجارہا ہے۔ سی پیک کی بات کی جارہی ہے مگر ایک آمر نے معاہدہ کرکے گوادر پورٹ کا 53فیصد حصہ چائنا کو دیا جبکہ 7فیصد وفاق کے پاس ہے گوادر کے بلوچوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ہم اس معاہدے کو نہیں مانتے، گوادر بلوچستان اور بلوچوں کا ہوگا،آپ ہمارے زمینوں پر قبضہ کرکے ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کررہے ہو،
سی پیک پر اب تک ایک کام نہیں کیا گیا ہے، سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے کے وسائل پر انہی قوموں کے حقوق ہیں، انہوں نے کہاکہ رضاربانی کی قیادت میں 18ویں ترمیم بنائی گئی اس پر بھی ان کی نظریں لگی ہوئی ہیں میں پی ڈی ایم کے قائدین سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح ون یونٹ کے خاتمے کیلئے ایک طویل جدوجہد کی اسی طرح 18ویں ترمیم بھی جمہوری جدوجہد کا حصہ ہے جس کا تحفظ ضروری ہے
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے این ایف سی ایوارڈ میں ہمیں زیادہ فنڈز دیئے مگر اب حکومت کہتی ہے کہ ہم خسارے میں ہیں آپ کب منافع میں تھے 72سالوں سے ہمیں ذلیل کیاجارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ آج بلوچستان کی عوام پانی، تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات کیلئے ترس رہے ہیں اورآپ کہتے ہیں کہ خسارے میں ہیں خسارے میں تو ہم ہیں جو اپنا سب کچھ کھوبیٹھے ہیں
جاکر لیاری، ملیر سمیت دیگر علاقوں کو دیکھوکہ کن حالات میں ہیں۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ آج ہم آئسولیشن میں چلے گئے ہیں ہم نے اپنے تمام دوستوں کو ناراض کردیا ہے یہ مائنڈ سیٹ افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہیں بنائے گاتو پاکستان میں معاشی استحکام نہیں آئے گا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگی فلاسفی کو ترک کرتے ہوئے انسانی ترقی کی فلاسفی کو اپنایاجائے۔
ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ آج اسٹیل مل، پی آئی اے خسارے میں جارہے ہیں جبکہ محنت کش اور مزدوروں کو ملازمتوں سے نکالا جارہاہے جو باعث شرم ہے۔ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاکہ آخر میں زورآوروں سے یہی کہتا ہوں کہ ”بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلے فقط ساقی بدلنے سے میخانے نہیں بدلیں گے۔