|

وقتِ اشاعت :   October 18 – 2020

گیلپ پاکستان کے سروے نے انکشاف کیا ہے کہ 85 فیصدپاکستانی کورونا کے باعث آمدن کم ہونے پر شدید پریشان ہیں، سروے میں گھر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے کھانا کم کھانے، سستی غذائی اشیاء استعمال کرنے اور امدادلینے والوں کی شرح میں بھی اضافہ ہواہے۔کورونا کی وباء سے عام آدمی کی معاشی حالت مزید خراب ہوئی ہے جس میں اب تک بہتری نہیں آسکی۔ سروے میں ملک بھر سے 2100 سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ یہ سروے 9 ستمبر سے 2 اکتوبر کے درمیان کیا گیا۔سروے میں کورونا وباء کے دوران گھریلو آمدنی میں کمی کی شکایت پاکستانی عوام کی اکثریت نے کی۔

گزشتہ سروے میں 84 فیصد افراد نے آمدن میں کمی ہونے کا کہا تھا جبکہ موجودہ سروے میں یہ شرح 85 فیصد نظر آئی جبکہ آمدن میں کوئی فرق نہ کہنے والوں کی شرح 16 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد ہوگئی۔اسی طرح گھر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے کھانے میں کمی کا گزشتہ سروے میں 9 فیصد افراد نے کہا تھا لیکن موجودہ سروے میں ایسا کہنے والوں کی شرح 3 فیصد اضافے کے بعد 12 فیصد ہوگئی۔گھر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے سستی غذائی اشیاء کے استعمال کا کہنے والے افراد کی شرح گزشتہ سروے میں 10 فیصد تھی جو 6 فیصد اضافے کے بعد اب 16 فیصد پر آگئی ہے۔

گزشتہ سات دنوں میں بنیادی ضروریات کیلئے مدد لینے کا کہنے والے افراد کی شرح گزشتہ سروے کے مقابلے میں 10 فیصد اضافے کے بعد اب 21 فیصد پر آگئی ہے۔سروے میں یہ دیکھا گیا کہ گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے عوام کا انحصار جمع پونجی پر کم ہورہا ہے۔گزشتہ سروے میں 10 فیصد افراد نے جمع پونجی استعمال کرنے کا بتایا تھا جبکہ موجودہ سروے میں 6 فیصد نے ایساکرنے کا کہاہے مگر یہ تعداد بھی ملکی آبادی کے تناسب سے 72 لاکھ بنتی ہے۔سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے گزشتہ سروے کی طرح موجودہ سروے میں بھی 11 فیصد افراد نے ذرائع آمدن بڑھانے پر غور کرنے کا کہا ہے۔

حکومت اور این جی اوز سے امداد لینے کا کہنے والے افراد کی شرح بھی گزشتہ سروے کے مقابلے میں 1فیصد اضافے کے بعد 4 فیصد ہوگئی ہے۔موجودہ سروے میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنے اثاثے فروخت کا کہنے والے افراد کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ سروے میں 5 فیصد نے اثاثے فروخت کرنے کا کہا تھا جبکہ موجودہ سروے میں 7 فیصد افراد نے ایسا کرنے کا کہاہے۔ آبادی کے تناسب سے گیلپ پاکستان کے مطابق یہ شرح 84 لاکھ بنتی ہے۔اس سروے سے قبل دیگر رپورٹس کے مطابق بھی ملک میں اس وقت معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔

اور لوگوں پر اس کا منفی اثر پڑا ہے گوکہ کورونا وباء نے ملکی معیشت کو مزید متاثر کیا جوپہلے سے ہی تنزلی کا شکار تھی مگر یہ تمام تر صورتحال اپنی جگہ ہے اور یہ پوری دنیا کیلئے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جب کورونا وائرس نے دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تو اس دوران معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہوکر رہ گئیں تھیں یہاں تک کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بالکل گِرچکی تھیں جسے خریدنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ جب صنعتیں نہیں چلتیں، کاروبار نہیں ہوتا تو پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ کم ہوجاتی ہے۔

جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ میں پہلی بار نچلی ترین سطح پر آ چکی تھیں مگر وہیں پر دنیا کے دیگر ممالک نے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا تھا تاکہ مزید معاشی بحران سے انہیں دوچار نہ ہونا پڑے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ بڑے بڑے ممالک میں لوگوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھوناپڑا جبکہ خلیجی ممالک خاص کر دبئی جو سیاحت کے حوالے سے مشہور ہے،کورونا وائرس کی وجہ سے ٹورازم کا شعبہ بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے اس سے وابستہ بیشتر غیرملکی افراد کو روزگار سے فارغ کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں نے بحران سے دوچار ہونے والے ممالک کو قرض دینے اور مالی ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے بھی فیصلے کئے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح سے معیشت کی ابتر صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ اب چونکہ کورونا وائرس کے باوجود کسی حد تک معاشی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوچکی ہیں مگر اب کمپنیاں اپنا خسارہ پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،یہ کہنا کہ جلدی تمام تر صورتحال بہتری کی طرف جائے گی۔

ایسا ممکن نہیں جس کیلئے مزید عرصہ درکار ہوگا تاکہ پوری طرح سے معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں تب جاکر لوگوں کی زندگی میں کچھ تبدیلی آئے گی اور بیروزگار ہونے والے افراد دوبارہ برسرِ روزگار آئینگے اور معیشت ایک بار پھر بہتر سمت پر جانے لگے گی۔ اب ملکی معیشت جو قرضوں پر چل رہی ہے اس کی بہتری کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔