|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔بلو چستان اسمبلی اجلاس میں مسودات اور قرارداد پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبا دلہ کے با عث ایوان مچھلی با زار بن گیا۔پا کستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے خلاف پیش کی گئی قرار داد کی عوامی نیشنل پا رٹی نے مخالفت کی۔بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا(ترمیمی) مسودہ قانون مصدرہ 2020مسودہ قانون نمبر9مصدرہ 2020ء کی پشتونخوا میپ اور عوامی نیشنل پارٹی نے مخا لفت کی اور احتجا جا با ئیکاٹ کیا۔

اجلاس کے دوران 4مسودات اور 2 قرارداد منظور کر لئے گئے۔ اجلاس میں بی این پی کے اختر حسین لانگو نے اپنا توجہ دلاؤ نوٹس پیش اور وزیر محکمہ مال کی توجہ گوادر کی اراضیات کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ صدر الدین ہاشوانی کو گوادر میں ساڑھے تین سو ایکڑ اراضی الا ٹ کی گئی ہے مذکورہ الاٹ کردہ اراضی گوادر ماسٹر پلان کا حصہ ہے اس کے باوجود مذکورہ زمین کسی شخص کو الاٹ کرنے کی کیا وجوہات ہیں۔

وزیر مال میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ مذکورہ اراضی کی الاٹمنٹ کینسل کردی گئی ہے یہ اراضی اب بلوچستان حکومت کی ملکیت ہے۔پیر کے روز بلو چستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران صوبائی وزیر تعلیم سرداریارمحمدرند نے بلوچستان کیڈ ٹ کالجز کامسودہ قانون مصدرہ 2020(مسودہ قانون نمبر5مصدرہ 2020 ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہاکہ بل کومنظوری کی بجائے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کیاجائے تاکہ اس پر بحث کی جائے۔

اور اس کے بعد آئینی طریقہ کار کے مطابق اس ایوان میں لاکر منظور کیاجائے جبکہ حکومتی ارکان نے اصرار کیا کہ بل کوبلوچستان اسمبلی کے مجریہ 1974ء کے قاعدہ 84اور 85 کے تقاضوں سے مستثنیٰ قراردیاجائے اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے مسلسل بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی،صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کہاکہ متعلقہ محکموں نے قانون کے تمام امور کو دیکھ لیاہے لہٰذاء اس سے منظور کیاجائے جس پر اسپیکر نے مسودہ قانون منظوری کیلئے ایوان میں رائے شماری کیلئے پیش کیا جس کی ایوان کی اکثریت رائے سے منظوری کے بعد سپیکر نے مسودہ قانون کو بلوچستان اسمبلی کے مجریہ 1974ء کے قاعدہ 84اور 85 کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دینے کی رولنگ دی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم سرداریارمحمدرند نے بلوچستان قبضہ ومنجمد اداروں (مدارس اور سکولز) کامسودہ قانون مصدرہ 2020 (مسودہ قانون نمبر7مصدرہ 2020 پیش کیااس موقع پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہاکہ ہم نے یہ مسودہ قانون ابھی نہیں پڑھا لہٰذااس سے کمیٹی کے سپرد کیاجائے کمیٹیاں اسی لئے بنائی جاتی ہے کہ وہاں پر بحث کرکے مسودہ کو بہترانداز میں ایوان میں لایاجائے جس پر سرداریارمحمدرند نے کہاکہ مسودہ قانون ارکان کو بھیج دیاگیا یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے نہیں پڑھا اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اپوزیشن اور حکومتی ارکان مسلسل بولتے رہے۔

اسپیکر نے نصراللہ زیرے کے بعض ریمارکس کارروائی سے حذف کرائے اور مسودہ قانون کو منظوری کیلئے ایوان کے سامنے پیش کیاایوان کی رائے شماری کے بعد اسپیکر نے مسودہ قانون کی منظوری کی رولنگ دیدی۔اجلاس میں بلوچستان رکن صوبائی اسمبلی ماہ جبین شیراں نے وزیربرائے مذہبی امور کی طرف سے بلوچستان قبضہ ومنجمد اداروں (مساجد) کامسودہ قانون مصدرہ 2020 (مسودہ قانون نمبر8مصدرہ 2020ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دی،اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت بلوچستان ڈاکٹرربابہ بلیدی نے بلوچستان قبضہ اور منجمد سہولیات (ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں) کا مسودہ قانون مصدرہ 2020مسودہ قانون نمبر10مصدرہ 2020ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دی۔

تاہم قبل ازیں جب پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا(ترمیمی) مسودہ قانون مصدرہ 2020مسودہ قانون نمبر9مصدرہ 2020 ء ایوان میں پیش کیا تو اس پر نہ صرف اپوزیشن رکن نصراللہ زیرئے نے شدید احتجاج کیا بلکہ حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے بھی شدید احتجاج کیا ان کا کہنا تھا کہ اس مسودہ قانون کو اس طرح منظور نہ کیا جائے بلکہ اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے اس طرح تو ہم یونیورسٹی کو واپس کالج کے درجے پر لارہے ہیں منظوری کی بجائے اسے پہلے قائمہ کمیٹی میں بھیجا جائے۔

یا اس پر ایوان میں بحث کرائی جائے جس پر وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ اس مسئلے پر طویل احتجاج ہوتا رہا ہے ابھی ہمیں دیگر معاملات میں نہیں پڑنا چاہئے بلکہ مسودہ قانون منظور کرناچاہئے۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کو چھ مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ا صغرخان اچکزئی نے کہا کہ احتجاج وائس چانسلر کے رویئے کے خلاف تھا وائس چانسلر کے رویئے سے طلبہ اور اساتذہ کو تحفظات تھے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔اس موقع پر جب مسودہ قانون کی منظوری سے متعلق تحریک ایوان میں لائی گئی۔

تو اس پر پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ مسودے کی منظوری سے احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بعدازاں اصغرخان اچکزئی اور نصراللہ زیرئے نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا جبکہ ان کی غیر موجودگی میں ایوان نے مسودہ قانون کی منظوری دی۔ صوبائی وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے مشترکہ مذمتی قرارداد پیش کی گزشتہ دنوں فرانس کے دارالخلافہ پیرس کے نواحی علاقے میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے رکھایاجانا نہ صرف قابل مذمت بلکہ فرانس میں باربار گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور ترویج مسلم امہ کیلئے ناقابل برداشت عمل ہے۔

علاوہ ازیں افسوسناک اور قابل حیرت کردار فرانس کے صدر کی جانب سے آیاہے جو انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے گستاخانہ کو اظہار رائے کی آزادی کانام دے کر اس کا دفاع کیا گیا جس کی وجہ سے مسلم دنیا کی نہ صرف دل آزاری ہوئی ہے بلکہ مسلم امہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے یہ کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں توہین مذہب کے لئے اظہار رائے کی آزادی کاسہارا لے کر طویل عرصے سے مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ جاری ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور مذہب کی شان میں گستاخانہ عمل عالمی سطح پر تعصب اور نسل پرستی کو ہوا دینے کی سازش ہے جس کاعالمی برادری اور ذمہ دار اداروں کونوٹس لیناچاہیے یہ کہ دنیا میں آباد مسلمان کسی صورت اپنے آقا محمدﷺ کی شان میں توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ لہٰذا یہ ایوان فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی مسلسل ترویج اور فرانسیسی صدر کے غیر ذمہ دارانہ ریمارکس کانہ صرف شدید الفاظ میں مذمت کرتاہے کہ بلکہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں یہ معاملہ اٹھائیں تاکہ مستقبل میں اسلام دشمن طرز عمل کاراستہ روکاجاسکے اپوزیشن لیڈر ملک سکندرایڈووکیٹ نے تجویز دی کہ یہ ایک انتہائی اہم مسئلے پر مبنی قراردادہے۔

اسے ایوان کی مشترکہ قرارداد کے طورپر منظور کیاجائے بعدازاں ایوان نے قرارداد کو متفقہ طورپرمنظورکرلیا۔اجلاس میں صوبائی وزراء و حکومتی اراکین سردارمحمد صالح بھوتانی، سردار یار محمد رند، سلیم احمد کھوسہ، سردار عبدالرحمان کھیتران، میر ضیاء اللہ لانگو، عبدالخالق ہزارہ اور مبین خان خلجی کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ میرظہوراحمدبلیدی کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے چند سیاسی جماعتوں پی ڈی ایم نے ملک کے مختلف حصوں میں جلسے جلوس کے نام پر جو واویلا مچارکھاہے۔

وہ گزشتہ انتخابات میں اپنی اپنی شکست خوردگی کی بھڑاس نکالنے کے سوا کچھ نہیں،جمہوری عمل میں جلسے اور احتجاج اگرچہ ہرشخص وگروہ کاجمہوری حق ہے لیکن گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف جس انداز میں زہر اگلوائے گئے وہ یقینا کسی بھی محب وطن پاکستانی کیلئے ناقابل برداشت ہے ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور کردار کشی کسی بھی قومی سیاسی جماعت کا خاصہ نہیں ہوسکتی۔

ان سیاسی جماعتوں نے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے ذریعے قوم اور اداروں کے درمیان دوریان اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔اور یہ کہ ان غیرذمہ دار سیاسی جماعتوں نے جلسوں میں اپنے گفتار وکردار کے ذریعے ملک میں انارکی،سیاسی،سماجی اور معاشی عدم استحکام لانے کی سازش کی ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک وقوم کو معیشت،ایف اے ٹی ایف سمیت داخلی وخارجی سطح پر چیلنجز درپیش ہیں۔

ایسے وقت میں قومی یکجہتی کامظاہرہ کرنے کی بجائے ریاستی اداروں پر بہتان تراشی اور ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششوں سے ظاہر ہوتاہے کہ نام نہاد جلسوں میں شامل جماعتیں کسی صورت ملک وقوم کی خیرخواہ نہیں،ہم آج اس قرارداد کے ذریعے واضع کرناچاہتے ہیں کہ پاکستان اور بلوچستان کی عوام پاک فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کی قربانیوں پر فخر کرتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اس کے برعکس گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں ریاستی اداروں پر دشنام طرازی اور قوم میں انتشار پھیلانے والوں کے طرز عمل کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں بلوچستان کے عوام اپنی فوج اور اداروں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے نظرآئیں گے۔قرارداد کی موذونیت پربات کرتے ہوئے میرظہوربلیدی نے کہاکہ ایوان میں سب کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق حاصل ہے جس طرح ہم نے اپوزیشن کو تحمل سے سنا انہیں بھی ہمیں تحمل سے سننا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت اور اداروں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے مذموم عزائم کیلئے اداروں پرالزام لگا کر عوام کی توہین کی۔ انہوں نے کہا کہ جلسے جلوسوں میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ قابل مذمت ہے بلوچستان کے لوگ اور پوری قوم اپنے اداروں اورپاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے مگرافسوس سے کہناپڑرہاہے کہ یہ لوگ اپنا سیاست چمکانے کیلئے اداروں کو بیچ میں لارہے ہیں۔

10سے15سال تک دہشتگردی کی لہر تھی یہی فوج تھی جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور آج انہی کی قربانیوں کے بدولت ہمیں امن نصیب ہواہے اقتدارآنی جانی چیز ہے،کئی دہائیوں تک یہ لوگ اقتدار پر برا جمان رہے آج ملک کواگر معاشی عدم استحکام اور مشکلات کاسامناہے تووہ انہی کی وجہ سے ہے،یہ قیادت جو زبان استعمال کررہی ہے یہ زبان کسی محب وطن پاکستانی کی نہیں بلکہ اسرائیلی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جب بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خواتین مرد،اساتذہ اور راہ گیروں کو شہید کیا گیا ان کے منہ سے ایک بیان نہیں آیا نہ انہوں نے کبھی ان واقعات کی مذمت کی،انہوں نے پی ڈی ایم رہنماؤں کی تقاریر میں استعمال ہونے والے الفاظ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جلسے جلوس کرنا سب کا جمہوری حق ہے مگر کسی کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ اپنے اداروں کے خلاف بات کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ففتھ جنریشن وارہے۔

بھارتی میڈیا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے خلاف ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ ظہوربلیدی کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان مسلسل ڈیسک بجاتے رہے اور ووٹ کو عزت دو، آٹا، چینی، گیس،بجلی چور کے نعرے لگاتے رہے۔ اس موقع پر کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی۔ اس موقع پر سپیکر نے کہا کہ قرار داد پر جمہوری انداز میں بات کرکے اس کی حمایت یا مخالفت کی جاسکتی ہے ہمیں ایوان کو جمہوری طریقے سے چلاتے ہوئے ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننی چاہئے۔

اس موقع پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لینے کی درخواست کی تھی جس پر ملکی مفاد میں آرمی چیف نے نوٹس لیا جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ملکی مفاد میں بروقت اور درست فیصلہ کرکے حالات خراب ہونے سے بچائے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اپنے پلیٹ فارم سے یہ واضح کرلے کہ ان کی کیا پالیسی ہے۔صوبائی مشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ ہمیں اس ایوان میں کھڑے ہو کر نہایت ذمہ داری سے بات کرنی چاہئے تمام صورتحال کو دیکھ کر اور پوری ذمہ داری سے ایسی بات کی جائے جس سے حالات خرابی کی جانب جانے کی بجائے بہتری کی جانب جائیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کیا بلکہ اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہے ففتھ جنریشن وار میں بھی یہی ہورہا ہے اور ملک کے سب سے مضبوط ادارے کے خلاف باتیں ہورہی ہیں ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا چاہئے۔

اور کوئی ایسی بات نہ کریں کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ کوئی کسی اور کے ایجنڈے پر بات کررہا ہے ہر ملک میں اس کے اپنے ادارے ہوتے ہیں فوج سمیت دیگر اداروں کے بغیر کوئی ملک نہیں چل سکتا افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں تین مرتبہ کے وزیر اعظم کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانیہ آتا ہے اور ملک کے سب سے مضبوط ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے کس کو خوشی ہوگی یقینی طو رپر اس سے بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن کو خوشی ہوگی یہ گھر ہمارا ہے۔

اور گھر کی بات گھرمیں رہے، گھر کی بات باہر جانے سے دنیا میں ہم پر انگلیاں اٹھیں گی۔ کسی دوسرے کے مقابلے میں تین مرتبہ کے وزیراعظم کو ملک، خطے اور عالمی صورتحال کا زیادہ بہتر طریقے سے احساس ہوگا۔ عالمی حالات، کشمیر سمیت دیگر چیلنجز کا بھی ان کو بخوبی علم ہوگا مگر ان کا بیانیہ دشمن کو فائدہ پہنچا رہا ہے ہم نے اپنے اداروں کو کمزور یا متاثر نہیں کرنا یہ صوبوں، وفاق سمیت جمہوریت اور کسی کے بھی حق میں نہیں ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچے۔

سابق وزیراعظم کی تقریر کسی عام شخص کی تقریر نہیں بلکہ ایک ذمہ دار شخص کی تقریر ہوتی ہے انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے کل ایک دوسرے کو سڑکوں کوگھسیٹنے کی باتیں کرنے والے آج ایک دوسرے کے دوست بنے ہوئے ہیں ہم کہتے ہیں کہ تمام سیاسی قائدین سیاسی جمہوری انداز اختیار کریں ملک میں سیاسی جمہوری جدوجہد کی جائے اور ففتھ جنریشن کے تحت ملک کے اداروں کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کل کے جلسے میں جو باتیں ہوئیں اس سے ایسا محسوس ہوا کہ دل کی بھڑا س نکالی گئی اور عداوت کی بنیاد پر باتیں کی گئیں جو نہیں ہونی چاہئے۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن مبین خلجی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں گیارہ جماعتی اتحاد نے جو زبان استعمال کرکے اداروں پر تنقید کی ہے وہ درست عمل نہیں چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ حکومت میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی آڑ میں پشتونوں پرجو ظلم کیا۔

اس وقت گورنری اور کشمیر کمیٹی والوں نے کوئی بات نہیں کی انہوں نے کہا کہ صوبے میں پشتونخوا میپ، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت جمعیت اور بی این پی نے گرائی انہوں نے کہا کہ اصغرخان اچکزئی کی اپوزیشن سے مخالفت صرف فنڈز تک ہے اور آج ان کی حمایت میں بول رہے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اسمبلیوں سے استعفیٰ نہیں دیں گے اگر انتخابات ٹھیک نہیں تھے۔

تو مولانافضل الرحمان نے صدارتی اور ان کے بیٹے نے ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن کیوں لڑا؟صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جلسے جلوس کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے مگر اداروں پر تنقید کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ملکی اداروں پر الزامات کس کی خوشنودی کے لئے لگائے جارہے ہیں عوام نے انہیں انتخابات میں مسترد کیا اب یہ اگلے انتخابات تک عوام کو تسلی دیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی زبان کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں ہونے والے پی ڈی ایم جلسے میں اویس نورانی نے آزاد بلوچستان کی جو بات کی انہیں یہ سٹیج کس نے فراہم کیا یہ سب اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔