بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں پی ڈی ایم جلسے میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی یقینا اس کا سہرا جے یوآئی ایف، بی این پی، پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی پر خاص کر جاتی ہے کیونکہ ان جماعتوں کے پاس اسٹریٹ پاور زیادہ ہے اور یہ بلوچستان میں عوام میں مقبولیت رکھتی ہیں اگر کہاجائے کہ گوجرانوالہ اور کراچی سے بڑا مجمع جمع کرنے میں یہ جماعتیں کامیاب ہوئی تھی تو یہ اپنی جگہ بجا ہوگا اور جلسے میں مقررین پہلے دو جلسوں سے زیادہ پُرجوش دکھائی دیئے اور جو بیانیہ اب تک بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں دو جلسوں میں اپنے تقاریر میں سامنے لارہی تھی۔
اس جلسے میں مریم نواز نے اپنی تقریر کے دوران قوم پرست جماعتوں کے بیانیہ کو دہراتے ہوئے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر کیا کہ یہاں سے نکلنے والے وسائل سے آج تک عوام خود محروم ہیں اور ان کے ساتھ ستر سالوں سے زائد ادوار میں یہاں کے عوام کے درد کامداوا نہیں کیا گیا بلکہ مزید ان کے ساتھ ناانصافیاں کی گئی یہ حیرن کن بات تھی کہ مریم نواز سخت لہجہ اپناتے ہوئے باقاعدہ بلوچستان کے تمام مسائل پر کھل کر اپنے خیالات کااظہار کرینگے چونکہ مولانافضل الرحمان، سردار اختر جان مینگل، محمودخان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ہر فورم پر بلوچستان کے بنیادی اور اہم ترین مسائل کو اٹھاتے رہے ہیں۔
مگر وفاقی حکومتوں نے کبھی بھی اسے سنجیدگی نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن تین بار برسرِ اقتدار رہ چکی ہے اور اس دوران بلوچستان میں کوئی خاص منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا اور نہ ہی کوئی بلوچستان کے وسائل کا جائز حق انہیں دیا گیا ہو جہاں تک سی پیک کا ذکر بار بار مسلم لیگ ن کی جانب سے کیاجارہا ہے تو اس سے برائے راست عوام کوکوئی فائدہ نہیں پہنچا البتہ گوادر پروجیکٹ، ایران گیس پائپ لائن، بلوچستان آغاز حقوق پیکج سمیت این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے ایک خطیر رقم دی گئی۔
مگر ن لیگ کے دور اقتدار کے حوالے سے بہت سی زیادتیوں کے سوالات موجودہیں اب کیا پی ڈی ایم کے جلسوں کے دوران جو وعدے وعید کئے جارہے ہیں اسے پورا کیاجائے گا بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے وفاق اپنی مداخلت بند کردے گی مرکزی جماعتیں اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لائے گی کیونکہ ماضی کی تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے کہ جب بھی مرکزی جماعتیں اقتدار میں آئی تو انہوں نے قوم پرست جماعتوں کو دیوار سے لگایا اور اپنے اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلے مسلط کئے۔
اب بھی یہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اس وقت پاور شو کیلئے ان جماعتوں کی ضرورت ہے اور جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائینگے پھر بلوچستان کو بھول کر اپنی پرانی پالیسی پر گامزن ہونگے مگر اب جو سیاسی ماحول بن چکا ہے اگر اس بار دھوکہ دہی کی گئی تو یقینا اس سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوکر رہ جائے گی اور ایک بڑا سیاسی بحران جنم لے بھی سکتا ہے جس کا متحمل ملک نہیں ہوسکتا جہاں تک اپوزیشن کا بیانیہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی ہے تو ماضی کے معاہدوں کی طرح خود بڑی جماعتیں اس کے خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہو جس سے عوام کا اعتماد ان سے اٹھ جائے۔
چونکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مشرف دور میں بھی معاہدہ ہوا تھا مگر بعد اس کاحشر کیا ہوا یہ سب کے سامنے ہے تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے بھولا جاسکتا ہے لہٰذا ملک میں آئین وقانون کی بالادستی سب کے مفاد میں ہے اور امید ہے کہ اس پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے عوام کے وسیع ترمفادمیں فیصلہ کیاجائے گا۔