|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2020

کوئٹہ: پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بعد موجودہ حکمرانوں کا حکومت کر نے کا اخلاقی جواز نہیں رہا کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کرینگے،بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے،جو حشر پشاور میں بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ حشر پورے ملک اور سی پیک کا ہوا ہے۔

ہم نے چین کے ساتھ بڑے منصوبوں لگانا شروع کئے،ان ن لوگوں نے کٹے، مرغی اور انڈے کے منصوبے پیش کر دیئے،کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا، ہم اداروں کے دشمن نہیں، اگر وہ پاکستان پر جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے گلہ،شکایت اور احتجاج کرنا ہمارا حق ہے،ہماری اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے۔

ادارے اپنی غلطی تسلیم کریں تو ہم آنکھوں پر بٹھائیں گے،ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، جعلی حکمرانوں کیخلاف تحریک زور سے آگے بڑھے گی۔ اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ گفتگو سے پہلے ایک قرار داد پیش کرنا چاہتاہوں کہ فرانس میں فرانس کے صدر حکم پر گستاخانہ خاکے عام دیواروں پر چسپاں کیے گئے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فرانس اور ڈنمارک نے بڑا ظلم کیا ہے، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے تاہم آپ کے توہین آمیز اقدامات شدت کی طرف دھکیل رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے ناپاک اقدامات فوری طور پر روک دیے جائیں، یورپ کی ایک عدالت نے اس کو اظہار آزادی کہنے سے مترادف قرار دیا اور اس کو جرم قرار دیا ہے تو پھر حکمرانوں کی سطح پر اس طرح کام ہوں گے تو پھر ردعمل آئے گا۔

سربراہ جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں کراچی میں مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے ساتھ ہونے والے واقعہ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور اگر ان کے ذمہ داروں میں کچھ بھی غیرت ہے تو انہیں چلو بھر پانی میں ڈ وب مرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ جس طرح کراچی میں واقعہ ہوا اسی طرح بلوچستان کے ایک مہمان کو ائیر پورٹ پر گرفتار کر نا بھی بلوچستان کی روایات کے خلاف ہے،یہ مہمان داری کے خلاف ہے ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کہتے ہیں مزار قائد پر نعرے لگائے تھے۔

لیکن جب لاہور کی مسجد وزیر خان میں شوٹنگ ہوتی ہے اور مسجد میں آکر ادا کاری کرتے ہیں،فلمبندی کرتے ہیں،مسجد کی حرمت اس وقت تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ نواز شریف اور بلاول بھٹو نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کو خوش آمدید کہتا ہوں، دو دن ہوئے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نام نہاد کابینہ میں بنایا گیا اور ایک جعلی صدر کے پاس بھیج دیا گیا۔

اور عدالت میں پیش کیا گیا جہاں طویل سماعتوں کے بعد اس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں کچھ اقدار موجود ہیں تو عدالت کے فیصلے کے بعد انہیں حکومت کرنے کا اخلاقی جواز بھی نہیں رہا لیکن کس بنیاد پر ایک شخص وزارت عظمیٰ اور صدارت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا مؤقف تھا کہ یہ حکومت جعلی ہے اور اب ہمارے مؤقف کو مزید تقویت ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بلوچستان کی سرزمین پر گفتگو کر رہے ہیں، 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دئیے گئے اور کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کریں گے، ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ کسی نادیدہ قوت کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ میں کمی لانے کی اجازت نہیں دینگے۔

ہم نادیدہ قوت کو بھی اس بات کی اجاز ت نہیں دے سکتے ہیں کہ عوام کے حق ملکیت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پاکستان کی تباہ حال معیشت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ہمارا اتحاد 5 سال مکمل کرکے آخری بجٹ دے رہا تھا تو اگلے سال کا تخمینہ 5 فیصد رکھا تھا تاہم ان نالائقوں نے ایک سال میں 1.8 فیصد پر لے آئے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے پچھلے سال آزادی مارچ میں بھی کہا تھا کہ یہ لوگ مزید رہے تو ملکی معیشت اور تباہ ہو جائیگی اور پھر وہی ہوا اور بعد میں جو بجٹ پیش کیا اس میں سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے چلا گیا، پاکستان کنگال ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آج کی دنیا میں ریاستوں کی بقا ء کا دار و مدار معیشت پر ہے، روس کی مثال سب کے سامنے ہے حالانکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط تھا تاہم معیشت تباہ ہوئی تو واپس روس بن گیا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہی ہندوستان تھا اور اسی جماعت کا واجپائی وزیراعظم تھا، اس وقت پاکستان کی معیشت بہتر تھی اور بھارت پاکستان سے تجارت کر نا چاہتا تھا،بس پر چڑھ کر واجپائی لاہور آیا اور پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان اور ایران آپ سے کاروبار کرنا چاہتے تھے، مشرقی وسطیٰ آپ کے ساتھ کاروبار کر نا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آج بھارت میں مودی کی جماعت کی حکومت ہے۔

تاہم مودی کا رویہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کا ہے، جو صاف بتا رہا ہے کہ پاکستان اب معاشی لحاظ سے کنگال ہو چکا ہے،ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان پاکستان کا خاتمہ کر ناچاہتا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم نے معاشی ترقی کے نئے راستے ڈھونڈے، ہم نے چین سے رابطہ کیا، چین کی 70سالہ دوستی کی تاریخ رہی جس کی مثالیں اب تک جاتی رہیں،پھرمعاشی دوستی میں تبدیل ہوئی 70ارب ڈالر پاکستان میں خرچ کئے۔

تاکہ صنعتی علاقے قائم ہوں، بجلی کے میگا پراجیکٹ لگیں،بجلی کی پیداوار بڑھاسکیں،، معیشت مستحکم ہو لیکن جب ان لوگوں کے ہاتھ میں حکومت آئی تو انہوں نے نیا فلسفہ دیا کہاکہ پاکستان اس طرح کے میگا پراجیکٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا، پاکستان سی پیک کا متحمل نہیں ہوسکتا، بجلی کی پیداوار کے بڑے منصوبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور ہمیں چھوٹے منصوبے چاہئیں اور مرغی، انڈے اور کٹے جیسے منصوبے پیش کردئیے۔

انہوں نے کہاکہ اب افغانستان بھی بات کرنے کو تیار نہیں تاہم ایک وقت تھا کہ ایران سے گیس لائن کی بات ہو رہی تھی جبکہ اب ایران بھی بھارت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور چین بھی ناراض ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا محور کشمیر رہا ہے لیکن جو کچھ کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا، انہوں نے دعا کی کہ اللہ میاں بھارت میں مودی جی کی حکومت آئی۔

جب بھارت نے کشمیر کو ختم کیا تو گھر میں خاموش بیٹھے رہے، ہم کشمیریوں کو جسم کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ پاکستان کا صوبہ بنائیں لیکن اقوام متحدہ میں کشمیر کے نقشے پیش کیے تھے اس میں آل جموں و کشمیر میں گلگت بلتستان کو پیش کیا تھا۔انہوں نے کہاکہ آج اس ایک حصے پر ہم قبضہ کریں اور دوسرے پر وہ قبضہ کریں تو پاکستان کے مؤقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ہمیں کہتے ہیں اے پی سی کی وجہ سے بھارت خوش ہوتا ہے۔

بھارت نے اس وقت خوشی منائی جب اس حکومت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج کیااور یہ پیغام سرحد پار کشمیریوں اور بھارت کو دے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کے خون پر سیاست کی، ان کے خون کو بیچا، کشمیری بچوں اور خواتین کے خون پر سیاست کی اور اس طرح کی پالیسی سے ہمارے مؤقف کا کیا ہوگا؟۔انہوں نے کہا کہ جو حشر پشاور میں بی آر ٹی کا ہوا ہے۔

وہ حشر پورے ملک میں سی پیک کا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہوا ہے،بات بڑی واضح ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ریاست کے طور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ ہم بار بار اس سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں اور ایسے حالات میں جب ملک معیشت تباہ ہوچکی ہے اور وہ تباہی ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے تو ان حالات میں اب ہمارا میدان میں آنا پاکستان کی بقا اور اس کی حفاظت کے لیے ہوسکتا ہے۔

اور کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ ہم اداروں کے دشمن نہیں، ادارے ملک کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، ہم اداروں اور اداروں کے ذمہ داران کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان پر مارشل لا مسلط کرتے ہیں یا ایک جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے گلہ کرنا، ان سے شکایت کرنا اور ان سے احتجاج کرنا ہمارا حق بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ آج بھی جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے، آج بھی قوم کے سامنے معذرت کرلے کہ ہم نے انتخابات میں غلط کیا تھا، ہم نے قوم کا مینڈیٹ تباہ کیا تھا تو ہم آج بھی ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں طاقت ور سے طاقت ور کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں جس کے تحت وہ عوام کو جانور سمجھیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی حکمرانی تسلیم کرو اور ان کی عزت کرو تو ہمیں تسلیم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ این آر او ہماری ضرورت نہیں، اب این آر او تمھاری ضرورت ہے۔ انہونے کہاکہ کہنے لگے ایک کروڑ نوکریاں دوں گا اور اس طرح دھوکا دے کر نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، ہمیں سنجیدہ حکومت چاہیے، میں آپ کی حکومت کا انکار کرتا ہوں، میں نے پہلے دن آپ کی حکومت تسلیم نہیں کی اور آج بھی اس پر ڈٹا ہوا ہوں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا، ظلم سے نکلنا چاہتے ہوتو ہمت کرو آگے بڑھو، پاکستان کے جوانوں اور بزرگوں، ماؤں اور بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو آزاد اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہو تو جدوجہد کرنا پڑے گی، گھر میں بیٹھے بیٹھے حالات نہیں بدلتے۔انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے، میرے نزدیک فوج کی حیثیت آنکھوں کی پلکیں کی طرح ہیں، پلکیں آنکھوں کی سرحدات کی حفاظت کرتی ہیں۔

اور یہ صرف سرحدات پر رہتی ہیں لیکن جب کوئی بال آنکھ میں آئے تو آنکھ بے قرار ہوتی ہے، اشک بہاتی ہے، اشک بہاتے بہاتے وہ بال نکل جائے ورنہ اس بال کو نکالنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ طاقت ور لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری محبت اور ہماری وفاداریوں کا مذاق مت اڑاؤ، قوم کو اس حد تک مت لے جاؤ کہ واپس آنا مشکل ہو جائے، ہم نے اس ملک کو ایک رکھنا ہے، عوام کے حقوق کی بات کرنی، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کرنی۔

دنیا میں پاکستان کی عزت و وقار کو اونچا کرنا ہے، اسی نقطہ نظر کو لے کر ہمت و جرات سے آگے بڑھنا ہے دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صد رمریم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے، کسی کو ووٹ کی عزت سے کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، جتنی محبت مجھے پنجاب سے ہے اس سے زیادہ محبت بلوچستان کے عوام سے ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد حکمرانوں کو استعفیٰ دینا چاہیے۔

اب عوا م کی حاکمیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے،یہاں بغاوت اور غداری کے سرٹیفکیٹ نہیں بٹیں گے۔ اتوار کو یہاں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے فرانس میں گستاخانہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ربیع الاول میں جب مسلمان نبی پاک ؐ کی ولادت کا مہینہ منا رہے تھے تو فرانس کی ایک بلڈنگ سے توہین آمیز خاکے لٹکائے جن سے ہمارے جذبات بہت بری طرح محروح ہوئے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر شرکاء سے کہاکہ آپ ہاتھ کر واقعہ پر میرے ساتھ احتجاج کریں۔بلوچستان کے طلباء کے احتجاج کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پنجاب اور باقی صوبوں کے بچے جتنے عزیز ہیں اتنے بلوچستان کے بچے ہمیں مجھے عزیز ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سوئی کے مقام سے اربوں روپے کی نکلنے والی گیس بلوچستان پورے پاکستان کو فراہم کرتا ہے لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ چھ سو بچوں کے سکالر شپ وہ اس حکومت نے ختم کر دیئے۔

اور بلوچستان کے بچے بارہ دن سے سڑکوں پر رل رہے تھے کسی کو رحم نہیں آیا انہوں نے کہاکہ امید کرتی ہوں کہ ان کے سکالرشپ بحال ہو نگے۔انہوں نے کہاکہ بلوچی لباس پہن کر بلوچستان کو پیغام دیناچاہتی ہوں کہ جتنی محبت مجھے پنجاب سے ہے اس سے زیادہ محبت مجھے بلوچستان کے عوام سے ہے۔مریم نواز نے کہاکہ یہاں سے نو جوانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، کبھی کبھی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں اکثر وہ ہمیشہ کیلئے لاپتہ اور غائب ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی بچہ کے تین بھائیوں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا اور کئی سال ہوگئے ہیں ان تین بھائیوں کا کچھ پتہ نہیں۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اکبر بگٹی شہید کا واقعہ بھی یاد آرہا ہے،کس طرح ایک آمر نے مکے لہرا کر کہا تھا کہ ہم تمہیں اس طرح مار یں گے کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اس نے نہ صرف ایک جمہوریت پسند لیڈر کو قتل کیا بلکہ اس کے چاہنے والوں کو چہرہ دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہاکہ جب پرویز مشرف کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تو عدالت ہی لپیٹ دی گئی۔انہوں نے کہاکہ مجھے کوئٹہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے تاریخی الفاظ آج میرے دل اور دماغ میں گونج رہے ہیں انہوں نے کہامیرے عوام کے ووٹ کو عزت دو، اپنے حلف کی پاسداری کرو، آئین کا احترام کرو، پالیسیاں بنانا تمہارا کام نہیں، یہ عوام کے نمائندوں کو کر نے دو۔

انہوں نے کہاکہ 72برس گز ر گئے کیا قائد اعظم کی اس تلقین پر علمدر آمد ہوا؟کیا حلف کو یاد رکھا گیا، کیا سیاست میں مداخلت بند ہوئی، کیا آئین کا احترام کیا گیا، کیا عوامی نمائندوں کو پالیسیاں بنانے دی گئیں، کیا عوام اور عوامی نمائندوں کا حکم مانا گیا،قائد اعظم کی روح بھی دیکھ رہی ہے کہ ان کی تلقین کو آج مٹی میں ملا دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ عوام کا مطالبہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو، اپنے حلف اور آئین کی پاسداری کرو، سیاست سے دور ہو جاؤ اور عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت کر نے دو، ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ،جعلی حکومتیں مت بناؤ،عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے مت ڈاؤ۔

انہوں نے کہاکہ غربت، پسماندگی اور بد حالی اور روز گاری اور بلوچستان کے اس حال میں پہنچنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ آپ کے ووٹ کو عزت نہیں ملتی، حکومت اس کی بنتی ہے جس کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھ میں نہیں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے،اس کی دوڑیں آپ نہیں کوئی اور ہلاتا ہے، حاکم کے گریبان پر آپ کا نہیں کسی اور ہاتھ ہوتا ہے، وہ آپ کو نہیں کسی اور کو جواب دہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عظیم فرزند اور مجھے قائد اعظم کے با اعتماد ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کی یاد آرہی ہے جس کا ایک قابل فخر فرزند ایک سپریم کورٹ کا جج ہے،آپ کو مبارکباد ہو آپ نے اس کیلئے آواز اٹھائی اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس کے خلاف ریفرنس بد نیتی پر مشتمل تھا جس نے بد نیتی کی، جس نے شفاف کر دار کے حامل ججزحضرات کے اوپر دھبہ لگانے کی کوشش کی اور نوکریوں سے فارغ کر نے کی کوشش کی آج ہم سب سلیکٹڈ عمران خان اس کے سلیکٹرز کو کہتے ہیں۔

اس تاریخی ناکامی پر سب لوگوں کو استعفیٰ دینا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتی ہوں جس طرح آ پنے ایک آزاد عدلیہ پر حملہ کو روکا ہے اسی طرح آگے بڑھیئے ایک اور شفاف کر دار کے حامل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی انصاف کیجئے،وہ سچ بولنے کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں وہ آنے والے دنوں کے چیف جسٹس تھے۔مریم نواز شریف نے کہاکہ وہ وقت آرہا ہے کہ تمہاری دو سال کی نہیں 72سال کی محنت ضائع ہو نے کو ہے، اب عوا م کی حاکمیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے،وو ٹ عزت پانے کو ہے۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ بھی یہاں کا بادشاہ رہاہے۔

بلوچستان کے اندر ووٹ کی عزت سے کھیلتا رہا ہے، ہم پوچھتے ہیں ایک نوکری پیشہ ہونے کے باوجود تمہارے پاس اربوں کھربوں کے اثاثے کہاں سے آئے ہے جس پر وہ چپ ہے،ہم ان سے 99کمپنیوں پوچھتے ہیں وہ چپ ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم پوچھتے ہیں رسیدیں دیں وہ چپ ہے۔ انہوں نے کہاکہ سلیکٹڈ اور سلیکٹر بھی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کر تا، نہ کوئی نیب، نہ ایف آئی اے اور نہ کوئی عدالت پوچھتی ہے؟

ایسا نہیں چلے گا، حساب تو آپ کو دینا پڑے گا، رسیدیں دکھانا پڑیں گی۔ انہوں نے کہاکہ چیئر مین سی پیک سے بھی استعفیٰ دیں۔ مریم نواز شریف نے کہاکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے، یہاں بغاوت اور غداری کے سرٹیفکیٹ نہیں بٹیں گے، لاپتہ افراد نہیں ہونگے، آپ کے وسائل کا استحصال نہیں ہوگا، کسی کو ووٹ کی عزت سے کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، وہی پاکستان ہوگا جس کیلئے آپ کے بزرگوں نے جدو جہد کی جس کیلئے آپ اور قائدین یہ جدو جہد کررہے ہیں، کٹھ پتلیوں کا کھیل ختم ہونے کو ہے۔