بلوچستان ملکی رقبہ کے نہ صرف نصف حصہ پر مشتمل ہے بلکہ ایک ایسا گیٹ وے ہے جو مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ممالک کے ساتھ تجارت کیلئے مواقع پیدا کرسکتا ہے جبکہ ایران، افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحدی پٹی بلوچستان کی ملتی ہے جس سے دونوں ممالک کے ساتھ باآسانی تجارت کیا جاسکتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس جانب بارہا توجہ دلانے کے باوجود وفاقی حکومتوں کی جانب سے اس اہم خطے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا اور آج ملک میں معاشی بحران ناقص پالیسیوں کو واضح کرتا ہے کہ کس طرح سے معاشی پالیسیاں مرتب کی گئیں اور ترجیحات میں کیا شامل تھی۔
اب ایک بار پھر وزیراعظم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پڑوسی ممالک کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ دوستانہ تعلقات کو بڑھانے کی بات کی گئی ہے جوکہ خوش آئند عمل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی ہر حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے پاک افغان تجارت سرمایہ کاری فورم 2020 کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے افغانستان سے روابط صدیوں سے ہیں تاہم افغانستان میں انتشار کے باعث دونوں ممالک کو نقصان پہنچا۔ پاکستان پُرامن افغانستان کا خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو نقصان پہنچا جبکہ افغانستان میں انتشار نے دونوں ممالک میں غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ بیرونی دباؤ سے افغانستان کے عوام پر رائے مسلط نہیں کی جاسکتی اب افغانستان کے لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے ہونگے۔وزیر اعظم نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ احساس کریں ماضی میں کیا کھویا کیا پایا، انسان ماضی سے سیکھتا ہے ماضی میں رہتا نہیں ہے اور عوامی روابط سے باہمی تعلقات کو فروغ ملتا ہے۔ دونوں ممالک میں عوامی اورسیاسی روابط کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
اور میری حکومت کی مخلصانہ کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات پیدا ہوں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے اور افغانستان میں امن آنے سے پاکستان اور دیگر ممالک کو بھی فائدہ ہو گا۔ ہمیں ماضی سے نکل کرتجارت، معیشت اور امن کی جانب جانا چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے بھارت سے دوستی کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے تاہم ہم بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش پھر بھی کرتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ 72 برس میں ہندوستان میں مسلمانوں سے اتنی نفرت کرنے والی حکومت نہیں آئی اور آر ایس ایس نظریاتی طور پر ہمارے خلاف ہے۔
بہرحال بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات حساس نوعیت کے ہیں جو آسانی سے حل نہیں ہوسکتے مگر افغانستان اور ایران کے ساتھ قربتیں بڑھاتے ہوئے پاکستانی معیشت کو دوبارہ اٹھایا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں سے عام طور پر روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کی تجارت ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے اسمگلنگ اور غیر قانونی طریقے سے یہاں کاروبار کرنے کی وجہ سے بلوچستان حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ سرحدی علاقوں کے عوام کا چولہا اسی سے جلتا ہے مگر اسے قانونی تجارت میں تبدیل کرکے سرحدی علاقوں کی معاشی صورتحال کو نہ صرف تبدیل کیاجاسکتا ہے بلکہ وہاں پر روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں جس سے بلوچستان کو بھی اچھا خاصاریونیو ملے گا اور ساتھ ہی ملکی خزانے کو بھی فائدہ پہنچے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملی اقدامات اٹھائے جائینگے یاہمیشہ کی طرح محض باتوں تک ہی محدود رہا جائے گا۔