|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2020

کوئٹہ:عدالت عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس جمال خان مندوخیل و جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بنچ کے روبرو جنید الرحمن سمیت لسبیلہ ضلع سے تعلق رکھنے والے پانچ پولیس سپائیوں کے امیدواروں کی جانب سے آئینی درخواست کی پیروی کرتے ھوئے امان اللہ کنرانی کی بحث و قانونی نکات کی روشنی میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل میر شیہک بلوچ کی کیس جلد نمٹانے کی استدعا سے قطع نظر ماسوائے مخصوص کوٹہ خواتین،معذور اور اقلیتی پانچ نشستوں پر تقرری کے باقی 46 امیدواروں کی تقرری پر عبوری حکم امتناعی میں توسیع کرتے ھوئے کیس متعلقہ جج صاحب جس نے پولیس افسروں کے تبادلہ بابت ایک باقاعدہ رہنما اصول متعین کردئیے تھے تھے

جس کو حکومت بلوچستان نے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا مگر عدالت عظمی نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ھوئے حکومت کی درخواست خارج کردی تھی اس کے بعد پولیس افسروں کا تبادلہ آئی جی کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی ہی منظوری دینے کی مجاز ہے جبکہ ڈی آئی جی خضدار رینج سمیت لسبیلہ ایس ایس پی و دیگر سلیکشن کمیٹی کے ممبران کی تعیناتی وزیراعلی بلوچستان کی ایمائی پر ھوئی ہے جس سے عدالت عظمی و عدالت عالیہ کے فیصلوں کی نفی و توھین ہے جبکہ درخواست گزار کے وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو آگاہ کیا پولیس کا سربراہ آئی جی پولیس بلوچستان اپنے محکمے میں تقرریوں و تبادلوں کے ذمہ دار ہیں اور وہ باقاعدہ اس مقدمہ میں فریق بھی ہیں لہٰذا ان کا عدالت کے سامنے موقف آنا و ان کو سننا ضروری اور قانون کا تقاضا ہے مگر عدالت کو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ آئی جی پولیس اس معاملے میں اپنا موقف دینے کی بجائے ڈی آی جی قلات رینج و ایس ایس پی لسبیلہ کے جواب پر انحصار کرتے ہیں