بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر مریم نواز سے گزشتہ روز لاہور جاتی امراء میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں چل رہی ہیں خاص کر ایک بار پھر بلوچستان حکومت کو گرانے کا تذکرہ کیاجارہا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں سب سے زیادہ فوکس بلوچستان کی سیاست کو کیا گیا تھا اور اسی پر بات چیت کی گئی تھی کہ بلوچستان میں آئندہ سیاسی حکمت عملی کو کس طرح مرتب کرتے ہوئے آگے بڑھایاجائے گا اور صوبائی حکومت پر دباؤ میں شدت لائی جائے گی خاص کر عدم اعتماد کی تحریک کی فضاء کو کس طرح بناکر اسے کامیاب کیا جاسکتا ہے۔
البتہ یہ اب تک اندرونی کہانی سے نکلنے والی خبروں کی قیاس آرائیاں ہیں مگر جب اس طرح کی خبریں باہر نکلتی ہیں تو ان کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا چونکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کے اندرون خانہ اپنے ذرائع ہوتے ہیں جو خبروں کو نکالتے ہیں بسا اوقات خبریں باؤنس ہوتی ہیں مگر خبریں جب ہیڈلائنز کی زینت بن جاتی ہیں اور ان کی تردید متعلقہ فریقین کی جانب سے نہیں آتی تو اس میں صداقت کا عنصر غالب رہتا ہے جبکہ افواہوں پر یہ خبریں حاوی ہوجاتی ہیں۔ بہرحال بلوچستان نیشنل پارٹی اورن لیگ کے قائدین کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو مزید مضبوط بنایاجائے گا۔
جبکہ بلوچستان میں موجود بی اے پی اور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کوگرانے کے آپشنز پر بھی غورکیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات کے دوران سردار اختر مینگل نے بلوچستان کی جماعتوں کی دعوت پر مریم نواز شریف کی کوئٹہ آمد اور بلوچستان کے اہم مسائل پر واضح موقف اختیار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا، دونوں رہنماؤں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو مستحکم رکھنے، حکومتی سازشوں پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے سیاسی سمجھ بوجھ کیساتھ فیصلے کئے جانے کیساتھ قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کی صورتحال پر متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے پر مکمل اتفاق کیا۔
مریم نواز شریف اور سردار اختر مینگل کی ملاقات کے دوران بلوچستان اسمبلی میں موجود بی اے پی اور پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کو گرانے کے آپشنز پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی اور اس سلسلے میں مزید رابطے کرنے اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیاجبکہ مریم نواز شریف چاہتی ہیں کہ بلوچستان میں کسی ممکنہ سیاسی پیش رفت کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے جوکہ اس اتحاد کے وسیع تر مفاد اور حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ انکے دورے کا مقصد مریم نواز شریف کا شکریہ ادا کرنا تھا کہ وہ بلوچستان کی جماعتوں کی دعوت پر نہ صرف کوئٹہ تشریف لائیں۔
بلکہ پی ڈی ایم کے جلسے میں بلوچستان کے تمام معاملات بشمول لاپتہ افراد ایک واضح موقف اختیار کیا،اسکے ساتھ تمام امور زیر غور آئے، ملک اور بلوچستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔سردار اختر مینگل کا کہنا تھاکہ جہاں تک بلوچستان میں کسی ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک کی بات ہے تو ہم بلوچستان اسمبلی میں اسٹیک ہولڈر ہیں وہاں بھی ہمارے پاس سیاسی جمہوری آپشنز موجود ہیں اور وقت آنے پر ہر آپشن کا بھر پور استعمال کرینگے۔یہ ملاقات کا احوال ہے کہ جس میں بلوچستان کی سیاست پر غیرمعمولی باتیں ہوئی ہیں چونکہ اس سے قبل عدم اعتماد کی بازگشت ہوتی رہی ہے۔
مگر اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی مگر اس بار بعض حلقے اسے سنجیدگی سے اس لئے لے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے بلوچستان میں صوبائی سطح پر اپنی جماعت کے اندر بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا براہ ر است تعلق بلوچستان میں سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے سے ہے۔ اس میں کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں اب یہ اپوزیشن جماعتوں کی مستقل مزاجی اور کمٹنٹ کے ساتھ ہونے والے فیصلوں پر منحصر ہے۔
جس میں عوامی نیشنل پارٹی کی بلوچستان حکومت بطور اتحادی الگ ہونے یا نہ ہونے پر بھی ہے کہ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کی بلوچستان کے متعلق ہونے والے فیصلوں کے بعد عملدرآمد یقینی بناسکتی ہے اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو شاید دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں اور سابقہ لیگی ارکان کوپی ڈی ایم اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس طرح عدم اعتماد کی تحریک ضرور لائی جاسکتی ہے مگر اس کی کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہونگے۔