ایپل نے گوگل کے متبادل کے طور پر اپنے سرچ انجن کی تیاری پر کام شروع کردیا ہے۔خیال رہے کہ ایپل کی ڈیوائسز پر مرکزی سرچ انجن کے طور پر رہنے کے لیے گوگل کی جانب سے ہر سال ایپل کو 10 سے 12 ارب ڈالرز ادا کیے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق مگر یہ معاہدہ جلد ختم ہونے والا ہے اور گوگل کے خلاف امریکی محکمہ انصاف کے اینٹی ٹرسٹ کیس کے باعث اس میں توسیع نہیں ہوسکے گی۔
ایپل کی جانب سے گوگل سے دوری اختیار کرنے کے لیے کافی عرصے سے کام کیا جارہا ہے۔
کمپنی کا ایپل بوٹ 2014 میں پہلی بار سامنے آیا تھا اور بتدریج ویب تک پہنچا جبکہ آئی او ایس 14 کی ہوم اسکرین سر پر ایپل نے ویب سائٹس کو ڈائریکٹ لنک کرکے گوگل کو مکمل طور پر بائی پاس کردیا۔
ایپل نے لگ بھگ 3 سال قبل گوگل کے سر اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس شبے کے سربراہ جان گیانناندیرا کی خدمات حاصل کی تھیں جو اب ایپل کے مشین لرننگ اور اے آئی اسٹرٹیی کے سنیئر نائب صدر ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ ایپل سرچ انجن کی شکل کیا ہوگی یعنی ویب سائٹ کی شکل یعنی گوگل ڈاٹ کام کی طرح ہوگا یا کھ اور۔
مگر یہ واضح ہے کہ ایپل اور گوگل کی شراکت داری اب ختم ہونے کے قریب ہے حالانکہ گوگل سے حاصل ہونے والی آمدنی ایپل کے سروسز شعبے کے 20 فیصد کے قریب ہے۔
ایپل کی جانب سے اپنے سرچ انجن میں صارفین کی پرائیویسی پر زور دیا جائے گا۔
کھ عرصے پہلے ایپل کے سی ای او ٹم کک نے اپنے ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ ہمارا بزنس ماڈل بہت سیدھا ہے، ہم اچھی مصنوعات فروخت کرتے ہیں اور کبھی بھی ای میل یا ویب براؤزنگ عادات پر مبنی رویوں کی پروفائلز بناکر اشتہاری کمپنیوں کو فروخت نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے آئی فون یا آئی کلاؤڈ میں محفوظ تفصیلات سے آمدنی حاصل نہیں کرتے، ہم آپ کی ای میل یا پیغامات کو نہیں پڑھتے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل ہواوے نے بھی اپنا پٹیل سرچ انجن متعارف کرایا تھا مگر اس کی وجہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں گوگل سروسز تک رسائی ختم ہونا ہے۔